عروہ بن مضرس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مزدلفہ میں ٹھہرے ہوئے دیکھا، آپ نے فرمایا: ”جس نے ہمارے ساتھ یہاں یہ نماز (یعنی نماز فجر) پڑھ لی، اور ہمارے ساتھ ٹھہرا رہا، اور اس سے پہلے وہ عرفہ میں رات یا دن میں (کسی وقت بھی) وقوف کر چکا ہے تو اس کا حج پورا ہو گیا“۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3042]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3042
اردو حاشہ: (1) فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد جبل قزح کے قریب جا کر یا مزدلفہ میں کسی بھی جگہ ذکر اذکار کرنا وقوف کہلاتا ہے۔ یہ وقوف سورج طلوع ہونے سے کچھ پہلے تک جاری رہے گا۔ سورج طلوع ہونے سے قبل ہی منیٰ کی طرف چل پڑنا مسنون ہے۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1684)۔ (2) روایت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص عرفات سے واپسی میں اتنا لیٹ ہو جائے کہ مزدلفہ میں امام حج کے ساتھ شریک نہ ہو سکے، اس کا حج نہیں ہوگا۔ البتہ جو شخص عرفات میں وقوف کر چکا ہو اور وہ صبح سے پہلے مزدلفہ آگیا ہو مگر نیند وغیرہ کی وجہ سے نماز اور وقوف سے لیٹ ہوگیا ہو، اس کا حج پورا ہو جائے گا۔ گویا صبح کی نماز مزدلفہ میں پڑھنا ضروری ہے، جماعت کے ساتھ ہو یا الگ۔ یاد رہے! صحیح قول کے مطابق صبح کی نماز مزدلفہ میں ادا کرنا حج کے ارکان میں سے ایک رکن ہے جس کے فوت ہونے سے حج نہیں ہوتا۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الفقھیة المیسرة، لحسین العودة: 4/ 391)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3042