سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ عرفات میں تھا تو وہ کہنے لگے: کیا بات ہے، میں لوگوں کو تلبیہ پکارتے ہوئے نہیں سنتا۔ میں نے کہا: لوگ معاویہ رضی اللہ عنہ سے ڈر رہے ہیں، (انہوں نے لبیک کہنے سے منع کر رکھا ہے) تو ابن عباس رضی اللہ عنہما (یہ سن کر) اپنے خیمے سے باہر نکلے، اور کہا: «لبيك اللہم لبيك لبيك»(افسوس کی بات ہے) علی رضی اللہ عنہ کی عداوت میں لوگوں نے سنت چھوڑ دی ہے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3009]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3009
اردو حاشہ: معلوم ہوتا ہے کہ عرفات میں لبیک کہنے میں اختلاف ہوگیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ قائل تھے۔ ان کے سیاسی مخالفین نے دینی مسائل میں بھی ان کی مخالفت شروع کر دی، حالانکہ سیاسی مخالفت کا اثر مذہب اور مسلک پر نہیں پڑنا چاہیے۔ خیر! لبیک رمی تک وقفے وقفے سے کہتے رہنا چاہیے۔ عرفات ہو یا مزدلفہ۔ یہ جمہور کا مسلک ہے۔ بعض فقہائے، مثلاً: حسن بصری کے نزدیک یوم عرفہ کی صبح کے بعد لبیک نہیں کہنا چاہیے۔ اور بعض کے نزدیک وقوف شروع ہونے کے بعد لبیک ختم کر دیا جائے۔ مسلک جمہوری تائید صحیح احادیث سے ہوتی ہے، لہٰذا وہی درست ہے، باقی سب اقوال قیاسی ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3009