الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب مناسك الحج
کتاب: حج کے احکام و مناسک
175. بَابُ : الرَّمَلِ بَيْنَهُمَا
175. باب: صفا و مروہ کے درمیان رمل کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2981
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ يَسَارٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: سَأَلُوا ابْنَ عُمَرَ هَلْ رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَلَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ؟ فَقَالَ:" كَانَ فِي جَمَاعَةٍ مِنَ النَّاسِ، فَرَمَلُوا فَلَا أُرَاهُمْ رَمَلُوا إِلَّا بِرَمَلِهِ".
زہری کہتے ہیں کہ لوگوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صفا و مروہ کے درمیان رمل کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی ایک جماعت کے درمیان تھے (میں خود تو آپ کو دیکھ نہ سکا) لیکن لوگوں نے رمل کیا تو میں یہی سمجھتا ہوں کہ آپ کے رمل کرنے کی وجہ سے ہی لوگوں نے رمل کیا۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2981]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 7446) (ضعیف الإسناد) (زہری کا عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے سماع ثابت نہیں ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، الزهري لم يسمع من ابن عمر رضي الله عنهما فالسند منقطع. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 343

   صحيح البخاريإذا طاف الطواف الأول خب ثلاثا ومشى أربعا يسعى بطن المسيل إذا طاف بين الصفا و المروة
   صحيح البخارياستلم الركن الأسود أول ما يطوف يخب ثلاثة أطواف من السبع
   صحيح البخاريسعى النبي ثلاثة أشواط ومشى أربعة في الحج والعمرة
   صحيح البخاريإذا طاف في الحج أو العمرة أول ما يقدم سعى ثلاثة أطواف ومشى أربعة سجد سجدتين يطوف بين الصفا والمروة
   صحيح البخاريإذا طاف بالبيت الطواف الأول يخب ثلاثة أطواف ويمشي أربعة يسعى بطن المسيل إذا طاف بين الصفا و المروة
   صحيح مسلمإذا طاف في الحج والعمرة أول ما يقدم فإنه يسعى ثلاثة أطواف بالبيت ثم يمشي أربعة يصلي سجدتين يطوف بين الصفا والمروة
   صحيح مسلمإذا طاف بالبيت الطواف الأول خب ثلاثا ومشى أربعا يسعى ببطن المسيل إذا طاف بين الصفا والمروة
   صحيح مسلمرمل من الحجر إلى الحجر
   صحيح مسلمرمل رسول الله من الحجر إلى الحجر ثلاثا ومشى أربعا
   صحيح مسلماستلم الركن الأسود أول ما يطوف حين يقدم يخب ثلاثة أطواف من السبع
   سنن أبي داودرمل من الحجر إلى الحجر
   سنن أبي داودطاف في الحج والعمرة أول ما يقدم فإنه يسعى ثلاثة أطواف ويمشي أربعا يصلي سجدتين
   سنن ابن ماجهرمل ثلاثة ومشى أربعة من الحجر إلى الحجر
   المعجم الصغير للطبرانيطاف بالبيت وصلى خلف مقام إبراهيم ركعتين وطاف بين الصفا والمروة وقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة
   سنن النسائى الصغرىيرمل الثلاث ويمشي الأربع
   سنن النسائى الصغرىإذا طاف في الحج والعمرة أول ما يقدم فإنه يسعى ثلاثة أطواف ويمشي أربعا يصلي سجدتين يطوف بين الصفا والمروة
   سنن النسائى الصغرىيخب في طوافه حين يقدم في حج أو عمرة ثلاثا ويمشي أربعا
   سنن النسائى الصغرىفي جماعة من الناس فرملوا فلا أراهم رملوا إلا برمله
   بلوغ المرامإذا طاف بالبيت الطواف الاول خب ثلاثا ومشى اربعا

سنن نسائی کی حدیث نمبر 2981 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2981  
اردو حاشہ:
روایت ضعیف ہے، اس لیے اس سے باب والا مسئلہ ثابت نہیں ہوتا، البتہ صرف ملین اخضرین بطن وادی کے دونوں کناروں پر لگے ہوئے سبز نشانات پر دوڑنا مسنون ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2981   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1891  
´طواف میں رمل کا بیان۔`
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حجر اسود سے حجر اسود تک رمل کیا، اور بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1891]
1891. اردو حاشیہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی مذکورہ بالا حدیث میں جمع اور تطبیق یہ ہے۔ کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ بیان عمرۃ القضا ء کے متعلق ہے۔جو ہجرت کے ساتویں سال فتح مکہ سے قبل کیا گیا تھا۔اسوقت رمل حجر اسودسے رکن یمانی تک کیا گیا تھا۔رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان رمل نہیں کیاگیا تھا۔ جب کہ سیدنا عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں جوکچھ بیان ہوا ہے۔ یہ حجۃ الوداع کاواقعہ ہے۔ لہذا یہ بعد والی حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پہلی والی حدیث کی ناسخ ہے۔ مزید براں عمرۃ القضا اور حجۃ الوداع کے موقع پر کئے جانے والے دونوں رمل میں ایک بہت بڑا اور بنیادی فرق ہے۔ وہ یہ کہ عمرۃ القضا میں صرف مشرکین کو دکھانے اور اپنے آپ کو ان کی سوچ کے برعکس طاقتورظاہر کرنے کے لئے رمل کیا گیا تھا۔ حالانکہ اس وقت مسلمان جسمانی طور پر کمزور تھے۔ جب کہ حجۃ الوداع کے موقع پر ایسی کوئی بات نہیں تھی۔اس موقع پر مشرکین کوکچھ دکھانا مقصود تھا نہ نہ اپنی طاقت کا اظہار ہی بلکہ اس وقت صرف اور صرف رسول اللہ ﷺ کااتباع کرتے ہوئے رمل کیا گیا تھا۔اس لئے حجر اسودسے لے کر حجر اسود تک یعنی پورے چکر میں رمل کیا گیا۔واللہ اعلم۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1891   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2943  
´طواف کعبہ میں کتنے پھیرے لگائے؟`
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما پہلے تین پھیروں میں رمل ۱؎ کرتے اور چار پھیرے عام چال چلتے، اور کہتے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2943]
اردو حاشہ:
رمل سے مراد بھاگنے کے انداز میں چلنا ہے جس طرح پہلوان اکھاڑے میں فخر سے چلتا ہے۔ بازو بھاگنے کے انداز میں ہوں اور قدم قریب قریب رکھے جائیں۔ رمل کی ابتدا عمرۂ قضا میں ہوئی تھی۔ کفار مکہ نے کہا: مسلمانوں کو یثرب کے بخار نے کمزور کر دیا ہے۔ آپ نے فرمایا: انھیں ذرا قوت سے چل کر دکھاؤ۔ جس طرف کفار پہاڑ پر بیٹھے ہوئے تھے (شمالی جانب) اس جانب مسلمان رمل کرتے، جب اوجھل ہو جاتے، یعنی جنوبی جانب پہنچ جاتے تو آہستہ ہو جاتے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ ادا ایسی بھائی کہ اسے اللہ تعالیٰ نے حج اور عمرے کا جز بنا دیا، مگر صرف پہلے طواف اور تین چکروں میں تاکہ لوگوں کے لیے مشقت کا باعث نہ ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2943   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3048  
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ کا پہلا طواف کرتے، تو تین چکروں میں رمل کرتے اور چار میں عام چال چلتے، اور جب صفا اور مروہ کے چکر لگاتے تو وادی کے اندر دوڑتے (نشیبی جگہ جس کی نشاندہی سبز ٹیوبوں سے کی گئی ہے) اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی طرح کرتے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3048]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
عمرہ یا حج کرنے والا جب مکہ مکرمہ پہنچ جائے گا تو وہ بیت اللہ میں جا کر سب سے پہلے طواف قدوم جسے طواف ورود اورطواف تحیہ بھی کہتے ہیں کرے گا تین چکروں میں قوت وطاقت کے اظہار والی تیز چال چلے گا،
اوربعد والے چارچکروں میں عام چال چلے گا۔
(پور ے طواف میں اضطباع کرے گا،
جس کی تفصیل گزر چکی ہے)

۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3048   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1604  
1604. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ حج اور عمرہ کرتے وقت طواف کے پہلے تین چکروں میں تیز چلتے اور دوڑتے تھےاور باقی چار چکروں میں معمول کے مطابق عام چال چلتے تھے۔ سریج کی لیث نے متابعت کی ہے، اس نے کہا: مجھے کثیر بن فرقد نے انھوں نے نافع سے، انھوں نے ابن عمر ؓ سے انھوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1604]
حدیث حاشیہ:
مراد حجتہ الوداع اور عمرۃ القضاء ہے۔
حدیبیہ میں تو آپ ﷺ کعبہ تک پہنچ ہی نہ سکے تھے اور جعرانہ میں ابن عمر ؓ آپ کے ساتھ نہ تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1604   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1644  
1644. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ پہلا طواف کرتے تو پہلے تین چکروں میں دوڑتے اور باقی چار میں معمول کے مطابق چلتے۔ اور جب صفا مروہ کی سعی کرتے تو نالے کے نشیب میں دوڑتے تھے۔ عبیداللہ نے کہا: میں نے حضرت نافع ؒ سے پوچھا کہ حضرت ابن عمر ؓ جب رکن یمانی کے پاس پہنچتی تو کیا حسب معمول چلتے تھے؟انھوں نے کہا کہ نہیں، البتہ اگر حجر اسود کے پاس ہجوم ہوتا تو آہستہ چلتے کیونکہ اس کااستلام کیے بغیر اس کو نہیں چھوڑتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1644]
حدیث حاشیہ:
بنی عباد کا گھر اور بنی ابی الحسین کا کوچہ اس زمانہ میں مشہورہوگا۔
اب حاجیوں کی شناخت کے لئے دوڑنے کے مقام میں دوسبز منارے بنا دیئے گئے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1644   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1603  
1603. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کودیکھا کہ جب آپ مکہ تشریف لاتے تو طواف شروع کرتے وقت پہلے حجراسود کو بوسہ دیتے، پھر سات چکروں میں سے پہلے تین میں ذرا اکڑ کر چلتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1603]
حدیث حاشیہ:
(1)
مکہ میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے جو طواف کیا جاتا ہے اسے طواف قدوم کہتے ہیں۔
رمل صرف اسی طواف میں ہے، خواہ یہ طواف حج کے لیے ہو یا عمرے کے لیے، نیز یہ رمل پہلے تین چکروں میں ہے۔
جو شخص رمل کرنا بھول جائے اس پر کوئی اعادہ یا قضا یا دم وغیرہ نہیں ہے۔
(2)
عورتوں پر رمل نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ان کی پردہ داری متاثر ہوتی ہے۔
(3)
طواف قدوم کے علاوہ کسی قسم کے طواف میں رمل نہیں ہے، خواہ وہ طواف زیارت ہو یا طواف وداع یا عام نفلی طواف۔
طواف عمرہ میں بھی رمل کا حکم ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے عمرہ قضا میں رمل کا حکم دیا تھا جس کی پہلے وضاحت ہو چکی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1603   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1604  
1604. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ حج اور عمرہ کرتے وقت طواف کے پہلے تین چکروں میں تیز چلتے اور دوڑتے تھےاور باقی چار چکروں میں معمول کے مطابق عام چال چلتے تھے۔ سریج کی لیث نے متابعت کی ہے، اس نے کہا: مجھے کثیر بن فرقد نے انھوں نے نافع سے، انھوں نے ابن عمر ؓ سے انھوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1604]
حدیث حاشیہ:
(1)
جمہور کا موقف ہے کہ حج اور عمرے میں طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل مشروع ہے لیکن ابن عباس ؓ اسے مسنون قرار نہیں دیتے۔
وہ کہتے ہیں کہ انسان کو اختیار ہے کرے یا نہ کرے، البتہ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور دیگر خلفاء ؓ حج اور عمرہ کرتے وقت رمل کرتے تھے۔
(مسندأحمد: 225/1)
بہرحال رمل مسنون ہے واجب نہیں۔
(2)
حضرت لیث کی متابعت کو امام نسائی نے متصل سند سے بیان کیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓ جب حج یا عمرہ کرنے کے لیے مکہ آتے تو طواف کے پہلے تین چکروں میں ذرا تیز چلتے اور باقی چار پھیروں میں اپنے معمول کی چال چلتے اور فرماتے کہ رسول اللہ ﷺ بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔
(سنن النسائي، مناسك الحج،حدیث: 2946)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1604   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1617  
1617. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب پہلا طواف کرتے تو پہلے تین چکروں میں دوڑتے اور باقی چار میں معمول کے مطابق چلتے۔ اور جب صفاومروہ کے درمیان سعی کرتے تو نالے کے وسط میں ذرا تیز دوڑتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1617]
حدیث حاشیہ:
(1)
بطن مسیل سے مراد وہ جگہ ہے جہاں سے بارش یا سیلاب کا پانی گزرتا تھا۔
اس نشیبی علاقے سے صفا و مروہ کی سعی کرتے وقت ذرا تیز دوڑنا چاہیے۔
امام بخاری ؒ نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ان دونوں روایات سے بھی ثابت کیا ہے کہ عمرے میں صرف بیت اللہ کا طواف کرنے سے عمرہ مکمل نہیں ہوتا جب تک صفا و مروہ کی سعی نہ کر لی جائے اگرچہ حضرت ابن عباس ؓ کا موقف اس کے خلاف ہے۔
(2)
بعض شارحین نے حضرت ابن عباس ؓ کا موقف بیان کیا ہے کہ جو کوئی حج اِفراد کی نیت کرے وہ جب بیت اللہ میں داخل ہو تو طواف نہ کرے جب تک وہ عرفات سے لوٹ کر نہ آئے۔
اگر اس نے طواف کر لیا تو حج کا احرام ختم ہو جائے گا، اس لیے وہ طواف کرنے ہی سے احرام کی پابندیوں سے آزاد ہو جائے گا۔
یہ قول بھی جمہور کے خلاف ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ عمرے کی تکمیل بیت اللہ کے طواف اور صفا و مروہ کی سعی سے ہو گی۔
اس کے بغیر عمرہ مکمل نہیں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1617   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1644  
1644. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ پہلا طواف کرتے تو پہلے تین چکروں میں دوڑتے اور باقی چار میں معمول کے مطابق چلتے۔ اور جب صفا مروہ کی سعی کرتے تو نالے کے نشیب میں دوڑتے تھے۔ عبیداللہ نے کہا: میں نے حضرت نافع ؒ سے پوچھا کہ حضرت ابن عمر ؓ جب رکن یمانی کے پاس پہنچتی تو کیا حسب معمول چلتے تھے؟انھوں نے کہا کہ نہیں، البتہ اگر حجر اسود کے پاس ہجوم ہوتا تو آہستہ چلتے کیونکہ اس کااستلام کیے بغیر اس کو نہیں چھوڑتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1644]
حدیث حاشیہ:
(1)
سعی دوڑنے اور مَشی معمول کے مطابق چلنے کو کہتے ہیں۔
صفا و مروہ کی سعی کا یہ مطلب نہیں کہ صفا سے لے کر مروہ تک دوڑ کر چکر لگانا ہے بلکہ مذکورہ حدیث کے مطابق صرف بطن مسیل میں رسول اللہ ﷺ دوڑتے تھے۔
اس سے مراد نالےے کا نشیبی علاقہ ہے۔
صرف اس علاقے میں معمول سے ذرا تیز چلتے تھے۔
یہ وہی علاقہ ہے جسے گزشتہ معلق روایت میں بنو عباد کے گھروں سے بنو ابی الحسین کی گلی تک کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
آج کل وہاں کچھ بھی نہیں بلکہ سبز رنگ کی بتیاں (Tube Lights)
لگی ہوئی ہیں۔
ان کے درمیان دوڑنا مسنون ہے، پھر عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ ان کے دوڑنے سے ان کی نسوانیت مجروح اور پردہ داری متاثر ہوتی ہے۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے عنوان میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا موقوف عمل پیش کر کے بطن مسیل کی تحدید یا نشاندہی کی ہے کہ صفا و مروہ کے درمیان صرف اس مقام پر دوڑنا مقصود ہے باقی علاقے میں معمول کے مطابق چلنا چاہیے۔
اگرچہ سعی کے ظاہری الفاظ سے دوڑنا ہی معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت کے اعتبار سے ایسا نہیں ہے۔
(فتح الباري: 635/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1644