ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چادر میں لیٹی تھی کہ اسی دوران مجھے حیض آ گیا، تو میں آہستہ سے کھسک آئی اور جا کر میں نے اپنے حیض کا کپڑا لیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھنے لگے: ”کیا تم کو حیض آ گیا ہے؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا، تو (جا کر) میں آپ کے ساتھ چادر میں لیٹ گئی۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 284]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الحیض 4 (298)، 21 (322)، 22 (323)، الصوم 24 (1929) صحیح مسلم/فیہ 2 (296)، (تحفة الأشراف: 18270)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الطھارة 121 (637)، مسند احمد 6/300، 318، سنن الدارمی/الطھارة 107 (1085)، ویأتي عند المؤلف في الحیض 10 (برقم: 371) (صحیح)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 284
284۔ اردو حاشیہ: ➊ حیض کے کپڑوں سے مراد لنگوٹی وغیرہ بھی ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے، انہوں نے حیض کے لیے مکمل لباس الگ رکھا ہوا ہو اور یہ بہتر ہے۔ ➋ حیض کی حالت میں اگر مرد کے کپڑوں یا جسم کو حیض کا خون لگنے کا احتمال نہ ہو تو اس حالت میں بیوی کے ساتھ لیٹا جا سکتا ہے، اس سے بوس و کنار بھی جائز ہے، صرف جماع حرام ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 284
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 298
´حیض کو نفاس اور نفاس کو حیض کہنا` «. . . أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ حَدَّثَتْهَا، قَالَتْ: بَيْنَا أَنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُضْطَجِعَةٌ فِي خَمِيصَةٍ، إِذْ حِضْتُ فَانْسَلَلْتُ فَأَخَذْتُ ثِيَابَ حِيضَتِي، قَالَ: أَنُفِسْتِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فَدَعَانِي فَاضْطَجَعْتُ مَعَهُ فِي الْخَمِيلَةِ . . .» ”. . . ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک چادر میں لیٹی ہوئی تھی، اتنے میں مجھے حیض آ گیا۔ اس لیے میں آہستہ سے باہر نکل آئی اور اپنے حیض کے کپڑے پہن لیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہیں نفاس آ گیا ہے؟ میں نے عرض کیا ہاں۔ پھر مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا لیا، اور میں چادر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لیٹ گئی . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ: 298]
� تشریح: نفاس کے مشہور معنی تو یہ ہیں کہ جو خون عورت کو زچگی میں آئے وہ نفاس ہے۔ مگر کبھی حیض کو بھی نفاس کہہ دیتے ہیں اور نفاس کو حیض، اس طرح نام بدل کر تعبیر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہاں حیض کے لیے نفاس کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 298
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 323
´جس نے (اپنی عورت کے لیے) حیض کے لیے پاکی میں پہنے جانے والے کپڑوں کے علاوہ کپڑے بنائے` «. . . عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: " بَيْنَا أَنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُضْطَجِعَةً فِي خَمِيلَةٍ حِضْتُ، فَانْسَلَلْتُ فَأَخَذْتُ ثِيَابَ حِيضَتِي، فَقَالَ: أَنُفِسْتِ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَدَعَانِي فَاضْطَجَعْتُ مَعَهُ فِي الْخَمِيلَةِ " . . . .» ”. . . ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک چادر میں لیٹی ہوئی تھی کہ مجھے حیض آ گیا، میں چپکے سے چلی گئی اور حیض کے کپڑے بدل لیے، آپ نے پوچھا کیا تجھ کو حیض آ گیا ہے۔ میں نے کہا، جی ہاں! پھر مجھے آپ نے بلا لیا اور میں آپ کے ساتھ چادر میں لیٹ گئی۔ . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ/بَابُ مَنِ اتَّخَذَ ثِيَابَ الْحَيْضِ سِوَى ثِيَابِ الطُّهْرِ:: 323]
� تشریح: معلوم ہوا کہ حیض کے لیے عورت کو علیحدہ کپڑے بنانے مناسب ہیں اور طہر کے لیے علیحدہ تاکہ ان کو سہولت ہو سکے، یہ اسراف میں داخل نہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 323
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 298
´نفاس کو حیض کہنا` «. . . أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ حَدَّثَتْهَا، قَالَتْ: بَيْنَا أَنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُضْطَجِعَةٌ فِي خَمِيصَةٍ، إِذْ حِضْتُ فَانْسَلَلْتُ فَأَخَذْتُ ثِيَابَ حِيضَتِي، قَالَ: أَنُفِسْتِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فَدَعَانِي فَاضْطَجَعْتُ مَعَهُ فِي الْخَمِيلَةِ . . .» ”. . . ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک چادر میں لیٹی ہوئی تھی، اتنے میں مجھے حیض آ گیا۔ اس لیے میں آہستہ سے باہر نکل آئی اور اپنے حیض کے کپڑے پہن لیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہیں نفاس آ گیا ہے؟ میں نے عرض کیا ہاں۔ پھر مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا لیا، اور میں چادر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لیٹ گئی . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ: 298]
فوائد و مسائل: باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا کہ نفاس کو حیض کہنا مگر وہ ایسی حدیث نہ لا سکے کیوں کہ ان کی شرط پر نہ تھی، جس میں نفاس کو حیض کہا گیا ہو بلکہ حدیث پیش کرتے ہیں جس میں حیض کو نفاس کہا گیا ہے۔ ابن رشد رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ: «مراد البخاري ان يثبت ان النفاس هو الاصل فى تسمية الدم الخارج»[فتح الباري، ج 1، ص 520] ”امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ نفاس دراصل نکلنے والے خون کا نام ہے۔“(اسی لیے دونوں کا حکم ایک جیسا ہے) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «ان حكم دم النفاس حكم دم الحيض»[فتح الباري ج1ص 520] ”نفاس کے خون کا حکم حیض کے خون جیسا ہے۔“ صاحب المتواری رقمطراز ہیں: «ان حكم الحيض و النفاس فى منافاة الصلاة»[المتواري ص81] ”یہ کہ حیض کا حکم نفاس کے حکم میں ہے کیوں کہ دونوں نماز پڑھنے سے روکتے ہیں۔“ شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں: «حاصل ما اراده البخاري رحمه الله ان إطلاق الحيض على النفاس والنفاس على الحيض شائع فيما بين العرب فكان، ماثبت من الاحكام الحيض ثابتاً النفاس ايضاً . . .»[شرح تراجم ابواب البخاري، ص123] ”حاصل یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ کہ حیض کا اطلاق نفاس پر ہے اور نفاس کا اطلاق حیض پر ہے پس جو احکامات حیض کے لیے ہیں وہی نفاس کے لیے بھی ہیں جس کی کوئی تفصیل شارح نے نہیں کی نفاس کے بارے میں۔“(کیوں کہ ان دونوں کا حکم یکساں ہے مگر گنتی کا فرق ہے) بدر الدین بن جماعۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (ترجمۃ الباب اور حدیث میں)”فقھی فائدہ یہ ہے کہ نفاس کا حکم بعین حیض کے حکم میں ہے (کیونکہ دونوں حرام چیزیں یکساں ہیں) اور دونوں پر غسل واجب ہے کیوں کہ نفاس حیض ہی کا خون ہے اور دونوں کا حکم ایک ہی ہے۔“[مناسبات تراجم البخاري، ص 43-44] امام خطابی رحمہ اللہ کا بھی یہی کہنا ہے کہ حیض اصل لفظ نفاس سے ماخوذ ہے اور وہ خون ہے۔ [اعلام الحديث فى شرح صحيح البخاري۔ ج1۔ ص313] لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ نے جو باب قائم فرمایا اس کی غرض یہی تھی کہ نفاس حیض کے حکم میں ہے اور حیض نفاس کے حکم میں کیوں کہ دونوں صلاۃ ادا کرنے سے روکتے ہیں یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 298
´حائضہ کے ساتھ صرف ہم بستری ہی حرام ہے` «. . . أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ حَدَّثَتْهَا، قَالَتْ: بَيْنَا أَنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُضْطَجِعَةٌ فِي خَمِيصَةٍ، إِذْ حِضْتُ فَانْسَلَلْتُ فَأَخَذْتُ ثِيَابَ حِيضَتِي، قَالَ: أَنُفِسْتِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فَدَعَانِي فَاضْطَجَعْتُ مَعَهُ فِي الْخَمِيلَةِ . . .» ”. . . ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک چادر میں لیٹی ہوئی تھی، اتنے میں مجھے حیض آ گیا۔ اس لیے میں آہستہ سے باہر نکل آئی اور اپنے حیض کے کپڑے پہن لیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہیں نفاس آ گیا ہے؟ میں نے عرض کیا ہاں۔ پھر مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا لیا، اور میں چادر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لیٹ گئی . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ/بَابُ مَنْ سَمَّى النِّفَاسَ حَيْضًا: 298]
تخريج الحديث: [170۔ البخاري فى: 6 كتاب الحيض: 22 باب من اتخذ ثياب الحيض سوي ثياب الطهر 298، مسلم 296]
لغوی توضیح: «خَمِيْلَة» چارد۔ «اَنُفِسْت» کیا تو حائضہ ہو گئی ہے؟
فھم الحدیث: اس اور آئندہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حائضہ کے ساتھ صرف ہم بستری ہی حرام ہے باقی اس کے ساتھ لیٹنا، غسل کرنا اور کھانا پینا وغیرہ سب امور جائز و مباح ہیں۔ جبکہ یہود کی یہ عادت تھی کہ جب ان میں کوئی عورت حائضہ ہوتی تو نہ اس کے ساتھ کھاتے اور نہ ہی اس کے ساتھ ایک گھر میں رہتے، پھر اسلام آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دے دیا کہ عورتوں کے ساتھ سب کچھ کرو سوائے جماع و ہم بستری کے۔ [مسلم: كتاب الحيض 302، أبوداؤد 258، ترمذي 2977، ابن ماجه 644]
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 170
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 371
´حائضہ کو حیض کے کپڑے میں ساتھ لٹانے کا بیان۔` ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لیٹی ہوئی تھی کہ اسی دوران مجھے حیض آ گیا، تو میں چپکے سے کھسک آئی، اور جا کر میں نے اپنے حیض کا کپڑا لیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم حائضہ ہو گئی؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں، پھر آپ نے مجھے بلایا، تو میں جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چادر میں لیٹ گئی، یہ الفاظ عبیداللہ بن سعید کے ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 371]
371۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں امام نسائی رحمہ اللہ کے دو استاد ہیں: عبید اللہ بن سعید اور اسحاق بن ابراہیم۔ دونوں کی روایت کا مفہوم ایک ہے، الفاظ میں کچھ فرق ہے۔ بیان کردہ الفاظ عبیداللہ بن سعید کے ہیں، نہ کہ اسحاق کے۔ مزید دیکھیے: حدیث: 284 کے فوائد و مسائل۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 371
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:298
298. حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا کہ میں ایک مرتبہ نبی ﷺ کے ساتھ ایک چادر میں لیٹی ہوئی تھی کہ مجھے حیض آ گیا، اس لیے میں آہستہ سے باہر آ گئی اور اپنے حیض کے کپڑے پہن لیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تجھے نفاس آ گیا ہے؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے مجھے اپنے پاس بلا لیا اور میں چادر میں آپ کے ساتھ لیٹ گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:298]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری ؒ کا اس عنوان سے یہ مقصد نہیں کہ وہ حیض و نفاس کے متعلق کوئی لغوی تشریح کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ یہ کتاب لغت سے متعلق نہیں، بلکہ اس کا موضو ع احادیث مبارکہ سے مسائل و احکام کا استخراج واستنباط ہے۔ غالباً امام بخاری یہ بتانا چاہتے ہیں کہ نفاس کا خون دراصل حیض ہی کا خون ہے جو قرار حمل کے سبب رحم کا منہ بند ہونے کی وجہ سے رک گیا تھا۔ ولادت کے بعد رحم کا منہ کھلتے ہی وہ نکل پڑا۔ اس بنا پر حیض ونفاس کے مسائل تقریباً یکساں ہیں۔ اس مقصد کے تعین کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ عنوان سے حدیث کی مطابقت کس حد تک ہے؟شارحین نے اس کے متعلق اپنے اپنے ذوق کے مطابق اظہار خیال کیا ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے: شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ حیض کا اطلاق نفاس پر اور نفاس کا اطلاق حیض پر اہل عرب کے ہاں عام ہے۔ اس لیے امام بخاری ؒ کے نزدیک جو احکام حیض کے ہوں گے، وہی حیض کے ہیں۔ شارع علیہ السلام نے الگ سے نفاس کے احکام نہیں بتائے 2۔ ابن المنیرفرماتے ہیں کہ یہ حدیث بظاہر عنوان کے مطابق نہیں، کیونکہ ھدیث میں عنوان کے برعکس حیض کو نفاس سے تعبیر کیا گیا ہے، لیکن امام بخاری اس امر پر تنبیہ کرنا چاہتے ہیں کہ منافات نماز وغیرہ کے مسائل میں حیض و نفاس کا حکم ایک ہی ہے۔ اس لیے حدیث سے دونوں کا یکساں حکم استنباط کر کے عنوان قائم کردیا، یہ اس لیے کیا کہ نفاس سے متعلقہ احادیث ان کی شرط کے مطابق نہ تھیں۔ (المتواري: 79) 3۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے اپنے عنوان میں فن بلاغت کی مشہور صنعت قلب کو استعمال فرمایا ہے، اصل اس طرح ہے کہ جس نے حیض کا نام نفاس رکھا یا اس میں تقدیم وتاخیر ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ (مَن سَمّٰى) سے مراد یہ ہے کہ جس نے لفظ نفاس کا اطلاق حیض پر کیا۔ ان تمام صورتوں میں حدیث کی عنوان سے مطابق بے تکلف ہو جائے گی۔ (فتح الباري: 522/1) 4۔ محدث ابن رشید نے فرمایا ہے کہ رحم سے نکلنے والے خون کو دراصل نفاس ہی کہتے ہیں، کیونکہ نفاس بمعنی خون لغت میں معروف ہے اور اس لفظ سے اس کی تعبیر ہے اور لفظ حیض سے اس کی تعبیر کرنا مخصوص معنی کے ساتھ تعبیر ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے عام معنی کے اعتبار سے اس پر نفاس کا لفظ استعمال فرمایا۔ جبکہ حضرت اُم سلمہ ؓ کی تعبیر خاص معنی کے اعتبار سے ہے۔ (فتح الباري: 522/1) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ طہارت کے متعلق حیض و نفاس کے مسائل یکساں ہیں۔ فقہاء نے جو وجوہ فرق بیان کیے ہیں وہ دوسرے اعتبارات سے ہیں جو اس وقت ہمارے موضوع سے خارج ہیں، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں خواتین حیض کے دوران میں استعمال کے کپڑے الگ رکھتی تھیں اور عام حالات میں استعمال کے کپڑے الگ ہوتے تھے۔ اس سے ان کے سلامت ذوق اور نفاست طبع کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کپڑوں کی عام قلت کے حالات میں ایسا اہتمام کرنا معمولی بات نہ تھی، جبکہ ہمارے ہاں خواتین میں ایسا اہتمام نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ہماری خواتین خود کو اس حالت میں نمایاں نہیں کرنا چاہتیں۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 298
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:323
323. حضرت ام سلمہ ؓ ہی سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: میں نبی ﷺ کے ہمراہ ایک چادر میں لیٹی ہوئی تھی کہ مجھے حیض آ گیا۔ میں چپکے سے نکل آئی اور حیض کا لباس پہن لیا۔ آپ نے فرمایا:”کیا تجھے حیض آ گیا ہے؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں! تو آپ نے مجھے بلا لیا اور میں آپ کے ساتھ چادر میں لیٹ گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:323]
حدیث حاشیہ: شارح بخاری علامہ ابن بطال ؒ لکھتے ہیں کہ اگر کوئی اعتراض کرے کہ یہ توحدیث حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک حدیث کے معارض ہے، جس میں انھوں نےفرمایا ہے: ”ہمارے پاس صرف ایک ہی لباس ہوتا تھا جس میں حیض کے دن بھی گزارتےتھے۔ “ اس کاجواب یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے ابتدائے اسلام کا حال بیان فرمایا ہے، جب مسلمانوں پرتنگی اور افلاس کے دن تھے، لیکن جب اس کے بعد فتوحات کا دور آیا اور اموال غنیمت کی بہتات ہوئی تو رہن سہن کے معاملات میں بھی وسعت آگئی اور عورتوں نے لباس میں تنوع اختیارکرلیا، زمانہ طہر کا لباس الگ اورزمانہ حیض میں استعمال کے لیے لباس دوسرا۔ حضرت ام سلمہ ؓ نے حدیث مذکور میں دوسرے خوش عیشی کے وقت کی خبر دی ہے۔ (شرح ابن بطال: 449/1) مقصد یہ ہےکہ اگرکوئی عورت ایام حیض کے لیے کوئی مخصوص لباس رکھتی ہے تو یہ عمل قابل اعتراض نہیں اور نہ اسے اسراف میں شامل کیا جاسکتا ہے جس کی شریعت میں ممانعت ہے۔ اسراف ممنوع یہ ہے کہ بے ضرورت یا محض فخرومباہات کے لیے لباس میں تنوع اختیار کیا جائے۔ اگرگنجائش ہو تو ان دنوں الگ لباس کا اہتمام کرنا بہتر ہے۔ بعض حضرات نے ثیابِ حیض سے مراد روئی کی گدی اور لنگوٹ وغیرہ لیا ہے، یعنی قمیص، شلوار اور دوپٹہ تو عورت کا لباس ہے، اگرایام حیض میں گدی اور لنگوٹ وغیرہ کا اضافہ کرلیا جائے تو قابل اعتراض نہیں، لیکن ہمارے نزدیک یہ محل نظر ہے، کیونکہ ان پٹیوں، گدیوں اور لنگوٹ وغیرہ کو لباس کا درجہ دینا صحیح نہیں۔ اسے احتمال بعید کا نام دینا ہی مناسب ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم ابواب میں لکھتے ہیں: ”اس حدیث سے استدلال اس بات پر موقوف ہے کہ ثیاب حیض سے مراد ایسے کپڑے لیے جائیں جو روئی کی گدیوں کے علاوہ پہنے جاتے ہیں۔ روئی کی گدیاں اورپٹیوں کا استعمال تو ایام حیض میں معروف ہے اوراحتمال ہے کہ یہی لباس مراد ہو۔ “ ہمارے نزدیک احتمال ہی نہیں، بلکہ حقیقت میں ایساہی ہے کہ حضرت ام سلمہ ؓ نے گدیوں اورلنگوٹ کے علاوہ کوئی دوسرا لباس پہنا تھا جو ایام حیض کے لیے مخصوص تھا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس لباس کو دیکھ کر فرمایا: ”کیا تجھے حیض آگیاہے؟“ یہ گدیاں اور لنگوٹ تو نظر نہیں آتے کہ انھیں دیکھ کر کوئی شخص حیض کا اندازہ لگالے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 323