ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ سفر میں تھے ان میں سے بعض نے احرام باندھ رکھا تھا اور بعض بغیر احرام کے تھے، میں نے ایک نیل گائے دیکھا تو میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو گیا، اور اپنا نیزہ لے لیا، اور ان لوگوں سے مدد چاہی تو ان لوگوں نے مجھے مدد دینے سے انکار کیا تو میں نے ان میں سے ایک کا کوڑا اُچک لیا اور تیزی سے نیل گائے پر جھپٹا اور اسے پا لیا (مار گرایا) تو ان لوگوں نے اس کا گوشت کھایا پھر ڈرے (کہ ہمارے لیے کھانا اس کا حلال تھا یا نہیں) تو اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”کیا تم لوگوں نے اشارہ کیا تھا یا کسی طرح کی مدد کی تھی؟“ انہوں نے کہا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تو کھاؤ“۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2829]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2829
اردو حاشہ: رسول اللہﷺ کے سوالات سے معلوم ہوا کہ اگر انھوں نے اشارہ کیا ہوتا یا کچھ مدد کی ہوتی تو ان کے لیے وہ شکار کھان جائز نہ ہوتا اور یہی باب کا مقصد ہے کیونکہ اشارہ یا تعاون کرنا شکار کرنے کے مترادف ہے۔ اور شکار کرنا محرم کے لیے ناجائز ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2829