یعلیٰ بن امیہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: کاش میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتے ہوئے دیکھتا، پھر اتفاق ایسا ہوا کہ ہم جعرانہ میں تھے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خیمے میں تھے کہ آپ پر وحی نازل ہونے لگی، تو عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے اشارہ کیا کہ آؤ دیکھ لو۔ میں نے اپنا سر خیمہ میں داخل کیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ کے پاس ایک شخص آیا ہوا ہے وہ جبہ میں عمرہ کا احرام باندھے ہوئے تھا، اور خوشبو سے لت پت تھا اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ایسے شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جس نے جبہ پہنے ہوئے احرام باندھ رکھا ہے کہ یکایک آپ پر وحی اترنے لگی، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خراٹے لینے لگے۔ پھر آپ کی یہ کیفیت جاتی رہی، تو آپ نے فرمایا: ”وہ شخص کہاں ہے جس نے ابھی مجھ سے (مسئلہ) پوچھا تھا“ تو وہ شخص حاضر کیا گیا، آپ نے (اس سے) فرمایا: ”رہا جبہ تو اسے اتار ڈالو، اور رہی خوشبو تو اسے دھو ڈالو پھر نئے سرے سے احرام باندھو۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں کہ ”نئے سرے سے احرام باندھ“ کا یہ فقرہ نوح بن حبیب کے سوا کسی اور نے روایت کیا ہو یہ میرے علم میں نہیں اور میں اسے محفوظ نہیں سمجھتا، واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2669]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2669
اردو حاشہ: (1) امام نسائی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ آخری جملہ ”پھر نئے سرے سے احرام باندھ۔“ درست نہیں۔ باقی راوی یہ جملہ بیان نہیں کرتے، یعنی امام صاحب رحمہ اللہ کے نزدیک یہ اضافہ معلول ہے۔ (2) صحیح یہ ہے کہ چونکہ وہ نا واقف تھا، اس لیے اسے معذور سمجھا اور کفارہ نہیں ڈالا۔ آج کل بھی اگر کوئی شخص واقعی عدم علم کی بنا پر سلہ ہوا کپڑا پہن لے، یا دوران احرام میں خوشبو لگا لے اور پتا چلنے پر فوراً ازالہ کر دے تو اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے۔ جمہور اہل علم کا یہی مذہب ہے اور یہی راجح ہے۔ آخری جملے کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپنے آپ کو محرم ہی سمجھ۔ ورنہ میقات سے آگے جا کر تو احرام باندھنا درست نہیں اور جعرانہ تو کوئی میقات نہیں بلکہ یہاں سے قریب ہی حرم شروع ہوتا ہے۔ (3) جو شخص بھی بھول کر مذکورہ کاموں میں سے کوئی کام کر لے تو اس کا بھی یہی حکم ہے بشرطیکہ یاد آنے پر وہ فوراً اس کا ازالہ کرے۔ (4) میقات سے پہلے حج کا لباس پہنا جا سکتا ہے لیکن نیت میقات ہی سے کی جائے گی، لہٰذا افضل یہی ہے کہ میقات ہی سے حج و عمرے کا احرام باندھا جائے الا یہ کہ کوئی مجبوری ہو، مثلاً: ہوائی جہاز کا سفر۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2669