اسماء بنت عمیس رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے محمد بن ابی بکر صدیق کو بیداء میں جنا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”ان سے کہو کہ غسل کر لیں پھر لبیک پکاریں“۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2664]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 15761)، موطا امام مالک/الحج 1 (1)، مسند احمد (6/369)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/ الحج16 (1209)، سنن ابن ماجہ/ الحج 12 (2911) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ غسل نظافت کے لیے ہے طہارت کے لیے نہیں۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2664
اردو حاشہ: (1) حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ تھیں۔ یہ واقعہ سفر حجۃ الوادع کا ہے۔ احرام سے قبل اسی وادی میں محمد بن ابوبکر پیدا ہوئے۔ (2) حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو غسل کا حکم طہارت کے لیے نہیں تھا کیونکہ یہ تو نفاس کا وقت تھا بلکہ یہ غسل احرام کے لیے تھا۔ معلوم ہوا غسل احرام کی سنت ہے ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نفاس والی عورت کو غسل کا حکم نہ دیتے، البتہ یہ واجب نہیں۔ غسل کی جگہ وضو بھی کفایت کر سکتا ہے مگر افضل غسل ہی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2664