عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ قبیلہ خثعم کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: میرے والد بہت بوڑھے ہیں وہ سواری پر چڑھ نہیں سکتے، اور حج کا فریضہ ان پر عائد ہو چکا ہے، میں ان کی طرف سے حج کر لوں تو کیا وہ ان کی طرف سے ادا ہو جائے گا؟ آپ نے فرمایا: ”کیا تم ان کے بڑے بیٹے ہو؟“ اس نے کہا: جی ہاں (میں ان کا بڑا بیٹا ہوں) آپ نے فرمایا: ”تمہارا کیا خیال ہے اگر ان پر قرض ہوتا تو تم اسے ادا کرتے؟“ اس نے کہا: ہاں (میں ادا کرتا) آپ نے فرمایا: ”تو تم ان کی طرف سے حج ادا کرو“۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2639]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 5292)، مسند احمد 4/5، سنن الدارمی/المناسک24 (1878) ویأتي عند المؤلف برقم: 2645) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ”یوسف“ لین الحدیث ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، يوسف بن الزبير: مجهول الحال (التحرير: 7863) لم يوثقه غير ابن حبان. وأصل الحديث صحيح،انظرالحديث السابق (الأصل: 2638) والحديث الآتي (الأصل: 2640) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 342
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2639
اردو حاشہ: (1) محقق کتاب نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ اس کی اصل صحیح ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی روایت معناً صحیح ہے، تاہم راجح اور درست بات یہ ہے کہ [اَنْتَ اَکْبَرُ وَلَدِہِ] کے علاوہ باقی روایت شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 26/ 47،48) (2) حج بدل کے لیے یہ ضروری نہیں کہ بڑا بیٹا ہی کرے بلکہ کوئی بیٹا بھی بلکہ بھائی حتیٰ کہ عام قرابت دار بھی حج بدل کر سکتا ہے۔ جیسا کہ اس بارے میں آنے والی دیگر روایات سے صاف معلوم ہوتا ہے۔ (دیگر مباحث کے لیے دیکھیے، روایات: 2633، 2236)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2639