الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب الزكاة
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
92. بَابُ : مَسْأَلَةِ الرَّجُلِ ذَا سُلْطَانٍ
92. باب: آدمی کا حاکم سے مانگنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2600
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الْمَسَائِلَ كُدُوحٌ يَكْدَحُ بِهَا الرَّجُلُ وَجْهَهُ، فَمَنْ شَاءَ كَدَحَ وَجْهَهُ، وَمَنْ شَاءَ تَرَكَ، إِلَّا أَنْ يَسْأَلَ الرَّجُلُ ذَا سُلْطَانٍ، أَوْ شَيْئًا لَا يَجِدُ مِنْهُ بُدًّا".
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مانگنا خراش (زخم کی ہلکی لکیر) ہے جسے آدمی اپنے چہرے پر لگاتا ہے، تو جو چاہے اپنے چہرے پر (مانگ کر) خراش لگائے، اور جو چاہے نہ لگائے، مگر یہ کہ آدمی حاکم سے مانگے، یا کوئی ایسی چیز مانگے جس سے چارہ نہ ہو۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2600]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الزکاة 26 (1639)، سنن الترمذی/الزکاة 38 (681)، (تحفة الأشراف: 4614)، مسند احمد 5/19، 22 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   سنن النسائى الصغرىالمسائل كدوح يكدح بها الرجل وجهه فمن شاء كدح وجهه ومن شاء ترك إلا أن يسأل الرجل ذا سلطان أو شيئا لا يجد منه بدا
   سنن النسائى الصغرىالمسألة كد يكد بها الرجل وجهه إلا أن يسأل الرجل سلطانا أو في أمر لا بد منه
   سنن أبي داودالمسائل كدوح يكدح بها الرجل وجهه فمن شاء أبقى على وجهه ومن شاء ترك إلا أن يسأل الرجل ذا سلطان أو في أمر لا يجد منه بدا

سنن نسائی کی حدیث نمبر 2600 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2600  
اردو حاشہ:
(1) نوچتا ہے۔ یعنی دنیا میں ذلت ہے اور آخرت میں تو واقعتا چہرہ نوچا ہوا ہوگا۔
(2) اپنا چہرہ نوچے۔ یہ اجازت نہیں بلکہ ڈانٹ ہے، جیسے قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے: {فَمَنْ شَآئَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُرْ} (الکھف: 29) چنانچہ جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔ روایت نمبر 2599 میں بھی ڈانٹ ہی ہے کہ تم چاہو تو تمھیں زکاۃ دے دیتا ہوں ورنہ تم مستحق نہیں۔ اگرچہ یہاں کہا جا سکتا ہے کہ ان کی وقتی فقیری کے پیش نظر انھیں دیا جا سکتا تھا کیونکہ کمائی تو وہ بعد میں ہی کر سکتے ہیں۔
(3) صاحب اقتدار سے مانگے۔ کیونکہ اس کے پاس مال اپنا ذاتی نہیں بلکہ عوام الناس کا ہے اور اس میں ہر شخص کا حق ہو سکتا ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام الناس کو ان کی بنیادی ضروریات فراہم کرے۔
(4) جس کے بغیر چارہ نہ ہو۔ مثلاً: بھوکا آدمی خوراک مانگ سکتا ہے اور مریض علاج کے لیے تعاون لے سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2600