قبیصہ بن مخارق رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک قرض اپنے ذمہ لے لیا، تو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے اس سلسلہ میں سوال کیا، تو آپ نے فرمایا: ”مانگنا صرف تین لوگوں کے لیے جائز ہے، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جس نے قوم کے کسی شخص کے قرض کی ضمانت لے لی ہو (پھر وہ ادا نہ کر سکے)، تو وہ دوسرے سے مانگے یہاں تک کہ اسے ادا کر دے، پھر رک جائے“۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2580]
الصدقة لا تحل إلا لأحد ثلاثة رجل تحمل حمالة فحلت له المسألة حتى يصيب قواما من عيش أو سدادا من عيش رجل أصابته جائحة فاجتاحت ماله فحلت له المسألة حتى يصيبها ثم يمسك رجل أصابته فاقة حتى يشهد ثلاثة من ذوي الحجا من قومه قد أصابت فلانا فاقة فحلت له المس
المسألة لا تحل إلا لأحد ثلاثة رجل تحمل حمالة فحلت له المسألة حتى يصيبها ثم يمسك رجل أصابته جائحة اجتاحت ماله فحلت له المسألة حتى يصيب قواما من عيش أو قال سدادا من عيش رجل أصابته فاقة حتى يقوم ثلاثة من ذوي الحجا من قومه لقد أصابت فلانا فاقة فحلت له
المسألة لا تحل إلا لأحد ثلاث رجل تحمل حمالة فحلت له المسألة فسأل حتى يصيبها ثم يمسك رجل أصابته جائحة فاجتاحت ماله فحلت له المسألة فسأل حتى يصيب قواما من عيش أو قال سدادا من عيش رجل أصابته فاقة حتى يقول ثلاثة من ذوي الحجى من قومه قد أصابت فلانا الف
المسألة لا تحل إلا لإحدى ثلاث رجل تحمل حمالة عن قومه أراد بها الإصلاح فسأل فإذا بلغ أو كرب أمسك رجل أصابته جائحة فاجتاحت فأجاحت ماله فسأل حتى يصيب سدادا من عيش رجل أصابته فاقة فمشى معه ثلاثة من ذوي الحجا من قومه فيقولون إن فلانا قد أصابته فاقة فيس
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2580
اردو حاشہ: قرآن مجید میں بھی اس جیسے لوگوں کو زکاۃ کا حق دار ٹھہرایا گیا ہے: ﴿وَالْغَارِمِينَ﴾(التوبة: 9: 60) اس سے مراد وہ شخص ہے جو کسی کی لڑائی ختم کرنے کے لیے متنازعہ رقم اپنے ذمے لے لیتا ہے مگر اتنی وسعت نہیں کہ خود ادا کر سکے۔ وہ زکاۃ کا مال لے کر تاوان ادا کر سکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2580
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 522
´صدقات کی تقسیم کا بیان` سیدنا قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سوال کرنا صرف تین آدمیوں کے لیے حلال ہے۔ ایک وہ شخص جو کسی کا بوجھ اٹھا لیتا ہے یہاں تک کہ اس کا قرض وغیرہ ادا ہو جائے پھر وہ سوال کرنے سے باز آ جائے اور دوسرا وہ جو کسی ناگہانی مصیبت میں پھنس گیا ہو اور اس کا مال تباہ و برباد ہو گیا ہو۔ اسے گزر اوقات کی حد تک سوال کرنا جائز ہے۔ تیسرا وہ شخص جسے فاقے آ رہے ہوں اور اس کی قوم کے تین صاحب عقل آدمی اس کی شہادت دیں کہ واقعی اسے فاقہ کشی کا سامنا ہے۔ اسے بھی گزر اوقات کی حد تک سوال کرنا جائز ہے اور ان کے علاوہ اے قبیصہ! سوال حرام ہے اور سوال کرنے والا حرام کھاتا ہے۔“(مسلم، ابوداؤد، ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان)[بلوغ المرام/حدیث: 522]
لغوی تشریح 522: ثَلَاثَۃٍ اس پر تنوین ہے۔ رَجُلٍ ثلاثۃ سے بدل ہونے کی وجہ سے مجرور ہے، یا پھر مرفوع ہے۔ اس صورت میں أَحَدُھُمْ مبتدا محذوف ہو گا۔ تَحَمَّلَ ذمہ اٹھایا، کفالت کی۔ حَمَالَۃً ”حا“ پر فتحہ اور ”میم“ مخفف ہے، وہ مال جو انسان دوسرے کیطرف سے ادا کرنے کی ذمہ داری اٹھاتا ہے، مثلاً: دوسرے کا قرض ادا کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لیتا ہے یا کسی کی دیت ادا کرنے کی حامی بھرتا ہے یا فریقین کے مابین تنازع کو دور کرنے کے لیے رقم کی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کرتا ہے اور وہ ادا کرنے کی پوزیشن میں نہ رہا ہو تو دوسروں سے تعاون کی اپیل کر سکتا ہے اور زکاۃ لے سکتا ہے۔ ٘ ثُّمَّ یُمسِکُ أمساک سے ماخوذ ہے۔ اپنی ضرورت پوری ہونے کے بعد فوراً دستِ سوال دراز کرنے سے رک جائے۔ جَائِحَۃٌ آسمانی یا زمینی آفت، مثلًا: نہایت ٹھنڈی ہوا چلنے سے، آگ لگنے سے یا سیلاب کی وجہ سے فصل تباہ ہو جائے۔ أِجتَاحَت ہلاک کر دے۔ قِوَامًا ”قاف“ کے نیچے کسرہ ہے، یعنی وہ چیز جس سے کوئی شخص اپنی حاجت و ضرورت کا انتظام کرتا ہے اور اپنی خستہ حالی کا سدباب کرتا ہے۔ أَلحِجٰی ”حا“ کے نیچے کسرہ ہے اور آخر میں الفِ مقصورہ ہے، یعنی عقل۔ سُحْتٌ ”سین“ پر ضمہ اور ”حا“ ساکن ہے۔ حرام۔ یَسحَۃُ البَرکَۃَ کے معنی ہیں: جو برکت کو لے اُڑے۔
فوائد و مسائل 522: اس حدیث میں سوال کرنے والے کی حالت معلوم کرنے کے لیے ایک ضابطہ بیان ہوا ہے اور وہ یہ کہ اس کی برادری یا قوم کے تین سرکردہ صاحبِ عقل ودانش آدمی اس کی حالت، کسمپرسی اور فاقہ کشی کی شہادے دیں تو اسے سوال کرنے کی اجازت ہے۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تین قسم کے آدمیوں کے لیے سوال کرنا جائز ہے اور اس میں سائلین کی حالت کو جانچنے اور تحقیق کرنے کا بھی حکم ہے۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اسلام نے گداگری کی کس طرح حوصلہ شکنی کی ہے اور محنت و مزدوری کی ترغیب دی ہے۔ راوئ حدیث: حضرت قبیصہ بن مخارق الہلالی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابوبشر کنیت ہے۔ قبیصہ میں ”قاف“ پر فتحہ اور ”با“ کے نیچے کسرہ ہے۔ اور مخارق میں ”میم“ پر ضمہ ہے۔ سلسلۂ نصب یوں ہے: قبیصہ بن مخارق بن عبداللہ بن شداد العامری الھلالی۔ شرفِ صحابیت سے مشرف تھے۔ بصرہ میں رہائش پذیر ہوے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفد کے ساتھ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث سنیں۔ چھ احادیث کے راوی ہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 522
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1640
´کن صورتوں میں سوال (مانگنا) جائز ہے؟` قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک قرضے کا ضامن ہو گیا، چنانچہ (مانگنے کے لے) میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ نے فرمایا: ”قبیصہ! رکے رہو یہاں تک کہ ہمارے پاس کہیں سے صدقے کا مال آ جائے تو ہم تمہیں اس میں سے دیں“، پھر فرمایا: ”قبیصہ! سوائے تین آدمیوں کے کسی کے لیے مانگنا درست نہیں: ایک اس شخص کے لیے جس پر ضمانت کا بوجھ پڑ گیا ہو، اس کے لیے مانگنا درست ہے اس وقت تک جب تک وہ اسے پا نہ لے، اس کے بعد اس سے باز رہے، دوسرے وہ شخص ہے جسے کوئی آفت پہنچی ہو، جس نے اس کا مال تباہ کر دیا ہو، اس کے لیے بھی مانگتا درست ہے یہاں تک کہ وہ اتنا سرمایہ پا جائے کہ گزارہ کر سکے، تیسرے وہ شخص ہے جو فاقے سے ہو اور اس کی قوم کے تین عقلمند آدمی کہنے لگیں کہ فلاں کو فاقہ ہو رہا ہے، اس کے لیے بھی مانگنا درست ہے یہاں تک کہ وہ اتنا مال پا جائے جس سے وہ گزارہ کر سکے، اس کے بعد اس سے باز آ جائے، اے قبیصہ! ان صورتوں کے علاوہ مانگنا حرام ہے، جو مانگ کر کھاتا ہے گویا وہ حرام کھا رہا ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1640]
1640. اردو حاشیہ: اس حدیث میں صرف تین قسم کےآدمیوں کو سوال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔اور انہیں صدقہ لینا حلال ہے۔ان میں سے ایک غنی اور دو فقیر ہیں۔ پھر فقیر ہونے کی بھی دو صورتیں ہیں۔ ایک ظاہری اور دوسرا مخفی غنی انسان اس وقت مانگ سکتا ہے۔ جب وہ کسی کا ضامن بن جائے۔اور اس کی توضیح یہ ہے کہ کسی قوم میں یا بعض افراد میں کوئی جان یا مال کی بنا ء پر عداوت پیدا ہوجائے۔اور ان کی صلح نہ ہورہی ہو۔بلکہ مذید حالات بگڑنے اور پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ہو۔ تو کوئی بھلا انسان ان میں صلح کی پیش کش کردے۔اورقرض یا دیت وغیرہ کی ادایئگی کا ضامن بن جائے تاکہ ان مسلما نوں کی آپس میں صُلح ہوجائے۔ اور پھوٹ نہ پڑے تو ایسے غنی کو دوسرے لوگوں سے تعاون لینے اورسوال کرنے کی اجازت ہے۔اورعام لوگوں کو بھی چاہیے کہ صدقات سے اس کے ساتھ تعاون کریں۔(یہ وہی صورت ہے جو حدیث 1635 کے فائدے میں غارم کی تشریح کرتے ہوئے بیان کی گئی ہے۔) دوسری قسم کاوہ آدمی جس کا مال کسی عام ظاہری آفت سے مثلا ً سیلاب آجانے سے آگ لگ جانے سے سمندر میں غرق ہوجانے سے یا زلزلہ وغیرہ سے ہلاک ہوجائے۔اور عام لوگوں کے علم میں ہو تو ایسے شخص سے دلیل اور گواہ طلب کرنےکی ضرورت نہیں بلکہ ایسے ویسے تعاون دیا جائے اور اس پرصدقات خرچ ہوسکتے ہیں۔تیسری قسم کا وہ شخص ہے۔جو بظاہر مالدار اورغنی ہونے کی شہرت رکھتا ہو۔ مگراندر خانے کسی خسارے۔گھاٹے۔چوری۔دھوکہ۔ اور خیانت ہوجانے کا اس طرح شکار ہوجائے۔ کہ فاقوں تک نوبت آگئی ہو تو ایسے شخص کےلئے اس کی قوم کے تین سمجھدارافراد گواہی دیں۔ تو اس سے سوال کرناجائز ہے۔ اور اس سے تعاون کرناضروری ہے۔ اور اس کو صدقات دینے بھی جائز ہیں۔ حتیٰ کہ وہ گزران حاصل کرلے۔ علاوہ ازیں سوال کرنا حرام اور صدقہ دینا ناجائز ہے۔ تعمیر مساجد۔دینی مدارس۔جہاد اور دیگر رفاہی کام جو مسلمان معاشرے کی اہم ملی ضرورت ہیں۔اور حکومت ان کی زمہ داری نہیں اُٹھاتی یا بہت کم تعاون کرتی ہے۔تو کوئی ایک یا زیادہ افراد باوجود غنی ہونے کے لوگوں سے تعاون حاصل کرکے یہ لوازمات معاشرہ کو مہیا کریں۔ تو ان کےلئے بھی جائز ہے کہ وہ مذکورہ امور کےلئے لوگوں سے سوال کریں۔اور دوسروں پر بھی لازم ہے کہ ایسے امور میں ان سے تعاون کریں۔بشر ط یہ کہ یہ لوگ اپنا بااعتماد ہونا ثابت رکھیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1640
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2581
´دوسرے کا قرضہ اپنے ذمہ لینے والے شخص کو صدقہ دینے کا بیان۔` قبیصہ بن مخارق رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک قرض اپنے ذمہ لے لیا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (ادائیگی کے لیے روپے) مانگنے آیا، تو آپ نے فرمایا: ”اے قبیصہ رکے رہو۔ (کہیں سے) صدقہ آ لینے دو، تو ہم تمہیں اس میں سے دلوا دیں گے“، وہ کہتے ہیں ـ: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے قبیصہ! صدقہ تین طرح کے لوگوں کے سوا کسی کے لیے جائز نہیں ہے: وہ شخص جو کسی کا بوجھ خود اٹھا لے ۱؎ تو اس کے لی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2581]
اردو حاشہ: (1)”ناگہانی آفت“ مثلاً: سیلاب، آگ، فصلوں کی بیماری اور طوفان وغیرہ۔ (2)”گواہی دیں“ یہ تب ہے جب وہ کمائی کے قابل ہو اور اس کے باوجود فاقہ زدہ ہو۔ ورنہ اگر وہ کمائی کے قابل ہی نہیں، مثلاً: دائمی مریض وغیرہ تو پھر گواہی کی کیا ضرورت ہے؟ الا یہ کہ وہ لوگ اسے جانتے ہی نہ ہوں، تو پھر گواہ کی ضرورت پڑے گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2581
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2592
´لوگوں سے کچھ نہ مانگنے والے کی فضیلت کا بیان۔` قبیصہ بن مخارق رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: تین شخصوں کے علاوہ کسی اور کے لیے سوال کرنا درست نہیں ہے: ایک وہ شخص جس کا مال کسی آفت کا شکار ہو گیا ہو تو وہ مانگ سکتا ہے یہاں تک کہ وہ گزارے کا کوئی ایسا ذریعہ حاصل کر لے جس سے اس کی ضرورتیں پوری ہو سکیں، پھر رک جائے، (دوسرا) وہ شخص جو کسی کا قرض اپنے ذمہ لے لے تو وہ قرض لوٹانے تک مانگ سکتا ہے، پھر (جب قرض ادا ہو جائے) تو مانگنے سے رک جائے۔ او۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2592]
اردو حاشہ: دیکھیے حدیث: 2580، 2581۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2592
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:838
838- سیدنا قبیضہ بن مخارق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے ایک ادائیگی اپنے ذمے لے لی (جو کسی دوسرے شخص کے ذمے لازم تھی) میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد مانگوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب صدقہ کے اونٹ آئیں گے، تو ہم تمہیں ادا کر دیں گے“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مانگنا حرام قراردیا گیا ہے۔ سوائے تین لوگوں کے، ایک وہ شخص جو کسی دوسرے (کی ادا ئیگی) اپنے ذمے لے۔ اس کے لیے مانگنا حلال ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ وہ اسے ادا کر دے، تو پھر مانگنے سے رک جا ئے۔ ایک وہ شخص جسے فاقہ لاحق اور حاجت لاحق ہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:838]
فائدہ: مال زیادہ جمع کرنے کی غرض سے لوگوں سے سوال کرنا حرام ہے۔ نیز اس حدیث میں تین صورتوں میں سوال کرنا جائز قرار دیا گیا ہے۔ ان تینوں صورتوں میں یہ بات واضح ہے کہ ضرورت پوری ہونے کے بعد رک جائے۔ یہ نہیں کہ ساری زندگی گدا گر ہی رہے۔ موجودہ دور میں گداگری ایک پیشہ بن گیا ہے۔ اس کی مذمت کرنی چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 839
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2404
حضرت قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ میں نے ایک بہت بڑے تاوان یا کسی کے قرض کی ذمہ داری قبول کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا کہ آپﷺ سے اس کے لئے کچھ مانگوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھہرو حتیٰ کہ ہمارے پاس صدقہ آ جائے تو ہم وہ تمھیں دے دینے کا حکم دیں۔“ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اے قبیصہ! سوال تین قسم کے افراد میں سے کسی ایک کے لئے جائز ہے، ایک وہ آدمی جس نے کسی ادائیگی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2404]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) تَحَمَّلْتُ حَمَالَةً: میں نے کسی امر خیر کے لیے دوسروں کی طرف سے بہت بڑی رقم کی ادائیگی کی ذمہ داری اٹھائی۔ (2) أَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ: وہ کسی قدرتی آفت کا شکار ہوا جس سے اس کی پیداوار غلہ پھل یا مال کا نقصان ہوا۔ (3) اجْتَاحَتْ مَالَهُ: سارا مال تباہ و برباد کر ڈالا، اس کا کچھ نہ چھوڑا۔ (4) قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ یا سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ: جس سے اس کا گزارہ ہونے لگا، جس سے اس کی ضرورت پوری ہو گئی، وہ مانگنے کا محتاج نہ رہا۔ (5) الحجا: عقل و دانش۔ (6) سُحْت: حرام۔ فوائد ومسائل: اسلام کا عام ضابطہ واصول یہ ہے کہ مانگنا جائز نہیں ہے ہاں اگر انسان کے پاس سوال کے سوا کوئی چارا نہ رہے کیونکہ اس نے دین یا اہل دین کی خاطر کوئی بہت بڑا جرمانہ یا تاوان یا قرض ادا کرنا ہو اور وہ دوسروں سے امداد لیے بغیر اس کو ادا نہ کر سکتا ہو۔ یا وہ کسی قدرتی آفت اور مصیبت کا شکار ہو گیا ہے جس سے اس کا تمام مال تباہ ہو گیا ہے اور اس کے پاس گزارہ کے لیے کچھ نہیں بچا یا وہ افلاس و ناداری کا شکار ہو کر محتاج ہو گیا ہے تو ان صورتوں میں اپنی ضرورت و حاجت کے پوری ہونے تک وہ مانگ سکتا ہے اس کے بعد سوال کرنا جائز نہیں ہے۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے اسلام میں پیشہ ورانہ گدا گری کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن افسوس جس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت دی ہے اس کی امت میں پیشہ ورسائلوں اور گداگروں کا ایک طبقہ موجود ہے اور اس کے لیے مختلف مصنوعی سوانگ بھرے جاتے ہیں اور کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو عالم یا پیربن کر معزز قسم کی گداگر کرتے ہیں یہ لوگ سوالی اور گداگری کے علاوہ فریب دہی اور دین فروشی کے بھی مجرم ہیں مساجد و مدارس کے نام سے چندہ لیں یا دینی اجتماعات (عید میلادالنبی اور عرس وغیرہ) محافل کے نام سے غنڈہ گردی کر کے جبری چندہ وصول کریں۔