ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین شخص ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ ان کو پاک کرے گا، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھی۔ تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ لوگ نامراد ہوئے، گھاٹے میں رہے، آپ نے فرمایا: ”(وہ تین یہ ہیں) اپنا تہبند ٹخنے کے نیچے لٹکانے والا، جھوٹی قسمیں کھا کھا کر اپنے سامان کو رواج دینے والا، اپنے دیے ہوئے کا احسان جتانے والا“۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2564]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2564
اردو حاشہ: (1)”نہ کلام فرمائے گا۔“ البتہ ڈانٹ ڈپٹ ہوگی لیکن عرفاً اسے کلام کرنا نہیں کہتے۔ یہ تو دشمنوں میں بھی ہوتا ہے۔ (2)”نہ پاک فرمائے گا۔“ سزا یہی ہے مگر اللہ تعالیٰ معاف فرما دے تو کیا اعتراض؟ سزا کے بعد تو ہر مومن کو معافی ہو ہی جائے گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2564
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4463
´جھوٹی قسم کھا کر سامان بیچنے والے کا بیان۔` ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین لوگ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ بات چیت کرے گا، اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ہی انہیں گناہوں سے پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت پڑھی ۱؎ تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ لوگ ناکام ہو گئے اور خسارے میں پڑ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے تہبند کو ٹخنے سے نیچے لٹکانے والا ۲؎، جھوٹی قسم [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4463]
اردو حاشہ: (1) مؤلف رحمہ اللہ نے جو عنوان قائم کیا ہے اس کا مقصد جھوٹ بول کر سودا بیچنے کی قباحت و شناعت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے خطرناک نتائج سے آگاہ کرنا بھی ہے۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے اللہ تعالیٰ کی کئی ایک صفات معلوم ہوتی ہیں، مثلاً: کلام کرنا، دیکھنا اور تزکیہ کرنا وغیرہ۔ لیکن یہ بات ہمیشہ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات، اس کی ذات ہی کے شایانِ شان ہیں۔ مخلوق میں پائی جانے والی صفات کے مشابہ ہرگز ہرگز نہیں جیسا کہ ایک گمراہ فرقے مُشَبِّہَہْ کا عقیدہ ہے، نیز اس سے دیگر گمراہ فرقوں مُعَطِّلَہْ اور مُمَثِّلَہْ وغیرہ کا بھی مکمل طور پر رد ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفات کے منکر ہیں یا وہ اس کی صفات تو مانتے ہیں لیکن انہیں مخلوق کی صفات جیسا قرار دیتے ہیں۔ (3) یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ، قیامت کے دن اپنے مومن بندوں پر نظر کرم فرمائے گا۔ وہ انہیں محبت بھری نظر سے دیکھے گا، ان کا تزکیہ کرے گا اور نہیں عذاب سے بھی نجات عطا فرمائے گا۔ (4) شلوار، تہ بند، پینٹ اور پائجامہ وغیرہ ٹخنوں سے نیچے لٹکانا، مردوں کے لیے بالکل حرام ہے۔ اور یہ سنگین جرم ہے۔ بعض لوگ جب نماز کے لیے مسجدوں میں آتے ہیں تو اس وقت ٹخنے ننگے کر لیتے ہیں اور نماز کے بعد پھر اسی پہلی حالت میں آ جاتے ہیں۔ یہ دو رنگی ہے۔ (5) جھوٹی قسم کھا کر سودا بیچنا، تہ بند ٹخنوں سے نیچے لٹکانا نیز کسی کے ساتھ نیکی اور احسان کر کے جتلانا کبیرہ گناہ ہیں۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ان گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے حدیث میں مذکور شدید وعید بیان فرمائی ہے۔ أعاذنا اللہ منه۔ (6)”نہ کلام کرے گا“ یعنی محبت اور پیار سے باتیں نہیں کرے گا۔ رحمت و شفقت کی نظر سے نہیں دیکھے گا اور انہیں گناہوں کی معافی دے کر پاک نہیں کرے گا۔ مقصود ان باتوں کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے ناراض اور غضب ناک رہے گا۔ غصے کی جھڑک اور ڈانٹ کو عرف عام میں کلام کرنا نہیں کہتے۔ اسی طرح غصے اور غضب کی نظر سے دیکھنے کو دیکھنا نہیں کہتے۔ (7)”تہ بند لٹکاتا ہے“ ایک دوسری روایت میں ہے جو شخص تکبر سے اپنا ازار زمین پر گھسیٹتا پھرتا ہے۔ ایک حدیث میں ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانے کو تکبر کہا گیا ہے۔ ہاں اگر باوجود اہتمام اور خیال رکھنے کے بھی کبھی کبھار کپڑا ٹخنوں سے نیچے چلا جاتا ہے تو مذکورہ بالا وعید، ان شاء اللہ، اس پر صادق نہیں آتی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4463
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4087
´تہ بند (لنگی) کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا منع ہے۔` ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین شخص ایسے ہیں جن سے اللہ قیامت کے دن نہ بات کرے گا، نہ انہیں رحمت کی نظر سے دیکھے گا، اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا“ میں نے پوچھا: وہ کون لوگ ہیں؟ اللہ کے رسول! جو نامراد ہوئے اور گھاٹے اور خسارے میں رہے، پھر آپ نے یہی بات تین بار دہرائی، میں نے عرض کیا: وہ کون لوگ ہیں؟ اللہ کے رسول! جو نامراد ہوئے اور گھاٹے اور خسارے میں رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹخنہ سے نیچے تہ بند لٹکانے والا، اور احسان جتانے والا، اور جھوٹی قس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4087]
فوائد ومسائل: احسان کرکے احسان جتلانا، جھوٹی قسم سے مال بیچنا اور مردوں کے لئے ٹخنوں سئ نیچے کپڑا لٹکانا حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4087
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2208
´خرید و فروخت میں حلف اٹھانے اور قسمیں کھانے کی کراہت۔` ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں؟ وہ نامراد ہوئے اور بڑے نقصان میں پڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اپنا تہمد (لنگی) ٹخنے سے نیچے لٹکائے، اور جو دے کر احسان جتائے، اور جو اپنے سامان کو جھوٹی قسم کے ذریعہ رواج دے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2208]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مرد کے لیےتہبند، شلوار اور پتلون وغیرہ کو اتنا نیچے تک رکھنا حرام ہے جس سے ٹخنے چھپ جائیں۔ جس عمل کی اتنی سخت سزا مقرر ہے اسے محض مکروہ قرار دینا درست نہیں۔
(2) تہبند کو اتنا نیچے رکھنا اس لیے حرام ہے کہ وہ تکبر کا مظہر ہے۔ ارشاد نبوی ہے: ”اپنا تہبند آدھی پنڈلی تک اونچا رکھ، اگر یہ نہ ہو تو ٹخنوں تک اونچا رکھ اور (اس سے نیچے تک) تہبند لٹکانے سے اجتناب کر کیونکہ یہ تکبر ہے، اور اللہ تعالیٰ کو تکبر پسند نہیں۔“(سنن أبي داود، اللباس، باب ماجاء في إسبال الإزار، حديث: 4084)
(3) مومن جب کسی سے نیکی کرے تو اس کی نیت اللہ کی رضا کا حصول ہونا چاہیے۔
(4) اللہ کے نام کی جھوٹی قسم کھانا، اللہ کے مقدس نام کے احترام کے منافی ہے۔ اور اللہ کے نام کی بے حرمتی کبیرہ گناہ ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2208
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1211
´سودے پر جھوٹی قسم کھانے والے کا بیان۔` ابوذر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین لوگ ایسے ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ (رحمت کی نظر سے) نہیں دیکھے گا، نہ انہیں (گناہوں سے) پاک کرے گا، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا“، ہم نے پوچھا: اللہ کے رسول! یہ کون لوگ ہیں؟ یہ تو نقصان اور گھاٹے میں رہے، آپ نے فرمایا: ”احسان جتانے والا، اپنے تہبند (ٹخنے سے نیچے) لٹکانے والا ۱؎ اور جھوٹی قسم کے ذریعہ اپنے سامان کو رواج دینے والا“۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1211]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس سے معلوم ہوا کہ تہبند ٹخنے سے نیچے لٹکانا، حرام ہے، تہبند ہی کے حکم میں شلوار یا پاجامہ اورپتلون وغیرہ بھی ہے، واضح رہے کہ یہ حکم مردوں کے لیے ہے عورتوں کے لیے اس کے برعکس ٹخنے بلکہ پیرتک بھی ڈھکنے ضروری ہیں۔
2؎: جھوٹی قسم کھانا مطلقاً حرام ہے لیکن سودا بیچنے کے لیے گاہک کودھوکہ دینے کی نیت سے جھوٹی قسم کھانا اورزیادہ بڑا جرم ہے، اس میں دو جرم اکٹھے ہو جاتے ہیں: ایک تو جھوٹی قسم کھانے کا جرم دوسرے دھوکہ دہی کا جرم۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1211
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 293
حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تین قسم کے لوگ ہیں قیامت کے دن اللہ ان سے (پیار و محبت کی) گفتگو نہیں کرے گا اور نہ ان کو (نظرِ رحمت سے) دیکھے گا اور نہ ان کو (گناہوں سے) پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔“ آپؐ نے تین دفعہ آلِ عمران کی یہ آیت (77) پڑھی۔ حضرت ابو ذر ؓ نے کہا: نا کام ہو گئے اور نقصان سے دوچار ہوئے۔ اے اللہ کے رسولؐ! یہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا: ”کپڑا نیچے لٹکانے والا اور جھوٹی قسم سے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:293]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) لَا يُكَلِّمُهُمُ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ: کسی سے گفتگو کرنا اور اس کی طرف دیکھنا، یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کو اہمیت دی جا رہی ہے اور اس پر توجہ ہے اور ان دونوں چیزوں سے کسی کو محروم کرنا، اس سے اعراض و انحراف کی علامت ہے کہ ایسے لوگوں کو کوئی اہمیت اور حیثیت حاصل نہ ہو گی۔ (2) وَلَا يُزَكِّيهِمْ: مسلمانوں کے لیے آگ گناہوں سے پاکیزگی اور تطہیر کا باعث ہو گی۔ یہ ایسے شدید گناہ ہیں کہ صرف آگ بھی ان سے پاک نہیں کرے گی جب تک توبہ نہ کی جائے۔ (3) الْمُسْبِلُ: فخر اور غرور سے ضرورت سے زائد، پگڑی، قمیص یا تہہ بند لٹکانا، عام طور پر تہہ بند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکایا جاتا ہے، اس لیے اس کا ذکر عام طور پر کیا گیا ہے، یہ اسبال سے ہے، لٹکانا۔ (4) الْمَنَّانُ: یہ مَنَّ سے ہے احسان دہرانا، کسی کو کچھ دے کر اس کو جتلانا۔ (5) الْمُنَفِّقُ: نفاق سے ہے۔ رواج دینا، پرکشش بنانا۔ سلع: سامان تجارت، بیچنے کی اشیاء۔ فوائد ومسائل: فخر وغرور سے چادر وغیرہ لٹکانا، کسی کو کچھ دے کر اس کو جتانا اور لوگوں کو پھانسنے کے لیے سامان کی بے جا تعریف کرنا، انسانی شرافت اور اسلامی کردار کے منافی اشیاء ہیں جو دوسروں کے لیے اذیت وتکلیف کا باعث ہیں، اس لیے ان کو انتہائی شدید جرم قرار دیا گیا ہے کہ ان کا ارتکاب اللہ تعالیٰ کے پیار ومحبت اورنظر عنایت والتفات سے ہی محرومی کا باعث نہیں ہے، بلکہ یہ جرائم ایسے ہیں کہ اگر ایمان اور اعمال صالحہ کا توشہ نہ ہوا تو آگ بھی ان گناہوں کو نہیں جلائے گی، کہ انسان پاک ہو جائے اس لیے مسلمانوں کو ان کاموں سے بچنا چاہیے۔