اسماء بنت ابی بکر رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور کہنے لگیں: اللہ کے نبی! میرے پاس تو کچھ ہوتا نہیں ہے سوائے اس کے کہ جو زبیر (میرے شوہر) مجھے (کھانے یا خرچ کرنے کے لیے) دے دیتے ہیں، تو کیا اس دیے ہوئے میں سے میں کچھ (فقراء و مساکین کو) دے دوں تو مجھ پر گناہ ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ”تم جو کچھ دے سکو دو، اور روکو نہیں کہ اللہ عزوجل بھی تم سے روک لے“۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2552]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2552
اردو حاشہ: (1) باندھ کر رکھنے سے مراد کنجوسی ہے کہ اگر تو اللہ تعالیٰ کے راستے میں نہ دے گی تو اللہ تعالیٰ بھی تجھ سے رزق روک لے گا۔ اللہ تعالیٰ کے لیے باندھنے کا ذکر تشاکل (علم معانی کی ایک اصطلاح) کے طور پر ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔ (2) اس روایت میں عطیات سے مراد وہ چھوٹے چھوٹے عطیات ہیں جن کی عرفاً ہر گھر میں اجازت ہوتی ہے۔ اگر زیادہ مال دینا ہو تو خاوند کی اجازت ضروری ہے کیونکہ وہ مال کا اصل مالک ہے۔ اگرچہ ہر چیز اللہ ہی کی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2552
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1699
´حرص اور بخل کی برائی کا بیان۔` اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس سوائے اس کے کچھ نہیں جو زبیر میرے لیے گھر میں لا دیں، کیا میں اس میں سے دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو اور اسے بند کر کے نہ رکھو کہ تمہارا رزق بھی بند کر کے رکھ دیا جائے۔“[سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1699]
1699. اردو حاشیہ: یعنی گھر میں سے عام معمولات کے مطابق جیس کے خواتین گھر کی امین ہوتی اور اس کا انتظام چلاتی ہیں۔جو تھوڑا بہت میسر ہو صدقہ کردیا کرو۔۔۔اس کی بہت برکات ہیں۔جبکہ بخیلی ایک نحوست ہے۔ باندھ باندھ کر مت رکھو کا مطلب یہی ہے کہ بخل سے کام مت لو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1699
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1960
´سخاوت کی فضیلت کا بیان۔` اسماء بنت ابوبکر رضی الله عنہما کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے گھر میں صرف زبیر کی کمائی ہے، کیا میں اس میں سے صدقہ و خیرات کروں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، صدقہ کرو اور گرہ مت لگاؤ ورنہ تمہارے اوپر گرہ لگا دی جائے گی“۱؎۔ «لا توكي فيوكى عليك» کا مطلب یہ ہے کہ شمار کر کے صدقہ نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی شمار کرے گا اور برکت ختم کر دے گا ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1960]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: بخل نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ برکت ختم کردے گا۔
2؎: اس حدیث سے معلوم ہواکہ مال کے ختم ہوجانے کے ڈر سے صدقہ خیرات نہ کرنا منع ہے، کیوں کہ صدقہ وخیرات نہ کرنا ایک اہم سبب ہے جس سے برکت کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے، اس لیے کہ رب العالمین خرچ کرنے اور صدقہ دینے پر بے شمار ثواب اور برکت سے نوازتاہے، مگر شوہر کی کمائی میں سے صدقہ اس کی اجازت ہی سے کی جاسکتی ہے جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی صراحت آئی ہے۔
3؎: یعنی ابن ابی ملیکہ اور اسماء بنت ابی بکر کے درمیان عباد بن عبداللہ بن زبیر کا اضافہ ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1960
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:327
327- سیدہ اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اے اسماء! تم (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے سے نہ رکو ورنہ تم سے رزق کو روک لیا جائے گا۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:327]
فائدہ: اس کنجوسی سے مراد ہے کہ رزق کو تالے میں رکھنا اور غریبوں پر خرچ نہ کرنا، یہ درست عمل نہیں ہے۔ جو انسان کنجوسی کرے گا، اس پر اللہ تعالیٰ بھی اپنی رحمت کے دروازے بند کر دے گا، لہٰذا سخاوت کی صفت کو اپنانا چاہیے، کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ بھی انسان پر سخاوت کرتا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 327
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2378
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! میرے پاس اس مال کے سوا جو مجھے زبیر دیتا ہے کوئی چیز نہیں ہے تو کیا جو وہ مجھے لا کر دیتے ہیں اگر میں اس میں سے تھوڑا سا خرچ کر دوں تو مجھے گناہ ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تھوڑا بہت جو کچھ تمھارے بس میں ہو خرچ کرو۔ اور جوڑ، جوڑ کر نہ رکھو، ورنہ اللہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2378]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) اِنْضَحِي: عطا کر، دے دے۔ (2) اِنفَحِي: عطا کر، دے دے، کیونکہ نَضَحَ اور نَفَحَ دونوں کا معنی عطا کرنا ہے اور نَضَحَ کا معنی انڈیلنا بھی ہوتا ہے تو اس صورت میں معنی ہو گا کشادہ دستی سے لٹا دے۔ رَضَخَ کا معنی ہوتا ہے تھوڑا یا کم دینا کچھ نہ کچھ دینا۔ (3) لاَ تُحْصِي: شمار نہ کر گن گن کر نہ رکھ۔ مقصد یہ ہے جمع کر کے اور ذخیرہ بنا کر نہ رکھ، ضرورت کی جگہ پر خرچ کر دے۔ (4) لَا تُوْعِي: وعاء (برتن) میں ڈال کر نہ رکھ، یعنی جوڑ جوڑ کر اور بند کر کے نہ رکھ۔ (5) فَيُوْعي اللهُ عَلَيْكَ: اللہ تمہارے ساتھ یہی معاملہ کرے گا۔ یعنی اپنی رحمت و برکت کے دروازے تم پر بند کر دے گا۔ فوائد ومسائل: ان احادیث کا پیغام یہ ہے کہ انسان کے حق میں بہتر یہی ہے کہ جو مال دولت وہ کمائے یا کسی ذریعہ سے اسے حاصل ہو۔ اسے اپنی ضروریات کے لیے کشادہ دستی سے خرچ کرے اور اس فکر میں نہ پڑے کہ میرے پاس کتنا ہے اور اس میں سے فی سبیل اللہ کتنا خرچ کروں اگر انسان حساب کر کے خرچ کرے گا۔ تو اللہ تعالیٰ بھی حساب کر کے دے گا۔ اگر انسان بے حساب دے گا تو اللہ بھی اپنی رحمت کے دروازے بے حساب کھول دے گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2378
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1433
1433. حضرت اسماء ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا:”صدقہ وخیرات کو مت روکو وگرنہ تم پر بندش کردی جائے گی۔“ ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”صدقہ دینے کے لیے گن گن کر مت رکھو، وگرنہ اللہ بھی تمھیں گن گن کر ہی دے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1433]
حدیث حاشیہ: مقصد صدقہ کے لیے رغبت دلانا اور بخل سے نفرت دلانا ہے۔ یہ مقصد بھی نہیں ہے کہ سارا گھر لٹا کے کنگال بن جاؤ۔ یہاں تک فرمایا کہ تم اپنے ورثاء کو غنی چھوڑ کر جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاتے پھریں۔ لیکن بعض اشخاص کے لیے کچھ استثناء بھی ہوتا ہے، جیسے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓ جنہوں نے اپنا تمام ہی اثاثہ فی سبیل اللہ پیش کردیا تھا اور کہا تھا کہ گھر میں صرف اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ کر آیاہوں، باقی سب کچھ لے آیاہوں۔ یہ صدیق اکبر جیسے متوکل اعظم ہی کی شان ہوسکتی ہے، ہر کسی کا یہ مقام نہیں۔ بہر حال اپنی طاقت کے اندر اندر صدقہ خیرات کرنا بہت ہی موجب برکات ہے۔ دوسرا باب اس مضمون کی مزید وضاحت کررہا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1433
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2591
2591. حضر ت اسماء ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”خرچ کرو اور اسے گن گن کر مت رکھو کہ پھر اللہ تعالیٰ بھی تمھیں گن کردے، نیز اسے مت روکو ورنہ اللہ بھی تم سے روک لے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2591]
حدیث حاشیہ: یعنی اللہ پاک بھی تیرے اوپر کشائش نہیں کرے گا اور زیادہ روزی نہیں دے گا۔ اگر خیرات کرے گی، صدقہ دے گی تو اللہ پاک اور زیادہ دے گا۔ اس حدیث سے حضرت امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ خاوند والی عورت کا ہبہ صحیح ہے۔ کیوں کہ ہبہ اور صدقے کا ایک ہی حکم ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2591
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1433
1433. حضرت اسماء ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا:”صدقہ وخیرات کو مت روکو وگرنہ تم پر بندش کردی جائے گی۔“ ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”صدقہ دینے کے لیے گن گن کر مت رکھو، وگرنہ اللہ بھی تمھیں گن گن کر ہی دے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1433]
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ ﷺ نے حضرت اسماء ؓ کو بندش مال سے منع فرمایا ہے جو مال ذخیرہ کرنے کی ایک صورت ہے، گویا آپﷺ نے فرمایا کہ صدقہ کرو، ذخیرہ نہ بناؤ، ذخیرہ بنانے کے لیے کسی مال کو گن گن کر رکھنا احصا ہے۔ اس سے مراد اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنا ہے۔ ایسا کرنے سے اللہ کی طرف سے اس مال کی برکت اٹھا لی جاتی ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ اسماء ؓ نے دریافت کیا: میرا اپنا تو مال نہیں، میرے پاس وہی مال ہوتا ہے جو میرے شوہر حضرت زبیر ؓ گھر لاتے ہیں، کیا میں اس سے صدقہ کر سکتی ہوں؟ آپﷺ نے فرمایا: ”ہاں صدقہ کرو، اس پر گرہ لگا کر نہ رکھو ورنہ تم پر بھی بندش کر دی جائے گی۔ “(صحیح البخاري، الھبة، حدیث: 2590)(2) اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص بے حساب خیرات کرتا ہے اللہ اسے رزق بھی بے شمار دیتا ہے اور یہ نفلی صدقے کے متعلق ترغیب ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1433
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1434
1434. حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے کہ وہ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوئیں تو آپﷺ نے فرمایا:”اپنے مال کو سینٹ سینٹ کر مت رکھو ورنہ اللہ اپنی رحمت تم سے روک لے گا اور جس قدر ممکن ہو خرچ کرتی رہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1434]
حدیث حاشیہ: (1) چونکہ حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ کے پاس اپنا ذاتی مال نہیں ہوتا تھا، اس لیے انہیں کہا گیا کہ حضرت زبیر ؓ کے مال سے جو کچھ میسر ہو خرچ کرتی رہا کرو۔ ایسا کرنے سے اللہ کی طرف سے رحمت کا نزول ہوتا ہے۔ لفظ إيعاء کے معنی روک لینا ہیں۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت مجازی ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ قرآن و حدیث میں جو صفات اللہ کی طرف منسوب ہیں، انہیں حقیقت پر محمول کرنا چاہیے، لیکن جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ وہ بندوں کو ان کے کردار کے مطابق جزا دیتا ہے۔ جیسا کہ مکروفریب اور دھوکے کی نسبت بھی اللہ کی طرف کی گئی ہے، اس لیے ایسے الفاظ کو مجاز پر محمول کرنے کی ضرورت نہیں۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1434
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2591
2591. حضر ت اسماء ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”خرچ کرو اور اسے گن گن کر مت رکھو کہ پھر اللہ تعالیٰ بھی تمھیں گن کردے، نیز اسے مت روکو ورنہ اللہ بھی تم سے روک لے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2591]
حدیث حاشیہ: حضرت اسماء ؓ سیدنا ابوبکر ؓ کی صاجزادی ہیں۔ حضرت زبیر بن عوام ؓ ان کے شوہر نامدار ہیں۔ انہوں نے نبی ﷺ سے پوچھا: میرے پاس تو خاوند کا مال ہوتا ہے، اس سے صدقہ کرنا کیا حیثیت رکھتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”مال شوہر کا سہی لیکن بیوی اس میں سے خرچ کر سکتی ہے۔ صدقہ بھی کر سکتی ہے“ اس سے امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ خاوند والی عورت کا ہبہ صحیح ہے کیونکہ صدقے اور ہبے کا ایک ہی حکم ہے۔ امام مالک ؒ کا موقف ہے کہ خاوند کی اجازت کے بغیر بیوی کا ہبہ کرنا صحیح نہیں اگرچہ وہ صاحب عقل ہو مگر تہائی مال کی حد تک اسے ہبہ کرنے کی اجازت ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2591