ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محترم بیویاں (ازواج مطہرات) آپ کے پاس اکٹھا ہوئیں، اور پوچھنے لگیں کہ ہم میں کون آپ سے پہلے ملے گی؟ آپ نے فرمایا: ”تم میں سب سے لمبے ہاتھ والی“، ازواج مطہرات ایک بانس کی کھپچی لے کر ایک دوسرے کا ہاتھ ناپنے لگیں، تو وہ ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا تھیں جو سب سے پہلے آپ سے ملیں، وہی سب میں لمبے ہاتھ والی تھیں، یہ ان کے بہت زیادہ صدقہ و خیرات کرنے کی وجہ سے تھا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2542]
وضاحت: ۱؎: یعنی آپ کی بیویوں میں سب سے پہلے انہیں کا انتقال ہوا، وہ لمبے ہاتھ والی اس معنی میں تھیں کہ وہ بہت زیادہ صدقہ و خیرات کرتی تھیں، بعض روایتوں میں سودہ کے بجائے زینب کا نام آیا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2542
اردو حاشہ: (1) یہ رسول اللہﷺ کے مرض وفات کی بات ہے۔ اور یہ سوال کرنے والی حضرت عائشہؓ خود تھیں۔ (2) یہ روایت مختصر ہے۔ اصل صورت واقعہ یہ ہے کہ ہاتھ ماپنے سے معلوم ہوا کہ حضرت سودہؓ کے ہاتھ لمبے ہیں، لہٰذا سب کا خیال تھا کہ وہی پہلے فوت ہوں گی۔ ویسے بھی وہ عمر کے لحاظ سے سب سے بڑی تھیں، مگر اتفاق ایسا ہوا کہ حضرت زینب بنت جحشؓ پہلے فوت ہوگئیں۔ تو غور کرنے سے پتا چلا کہ ہاتھوں کی طوالت سے مراد ظاہری طوالت نہیں بلکہ صدقے کی کثرت تھی۔ (جس طرح ہم سخی شخص کو کھلے ہاتھوں والا کہہ دیتے ہیں) حضرت زینبؓ سخی خاتون تھیں۔ ویسے وہ قد کے لحاظ سے چھوٹی تھیں جبکہ حضرت سودہؓ بڑے قد کاٹھ کی مالک تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہو۔ ترجمے میں قوسین وغیرہ کے ذریعہ سے کوشش کی گئی ہے کہ روایت اصل صورت حال کے مطابق ہو جائے ورنہ روایت کے ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سودہؓ سب سے پہلے فوت ہوگئیں، حالانکہ یہ بات تاریخی لحاظ سے غلط ہے۔ حضرت سودہؓ تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں 54 ہجری میں فوت ہوئیں اور حضرت زینبؓ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں 30 ہجری میں ازواج مطہرات میں سب سے پہلے فوت ہوئیں۔ یہ بات تاریخی طور پر متفق عطیہ ہے۔ اور بعض احادیث میں بھی یہ تفصیل ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2542