عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! فلاں شخص کبھی دن کو افطار نہیں کرتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے نہ روزہ رکھا، نہ افطار کیا“۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2381]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2381
اردو حاشہ: ہمیشہ روزہ رکھنا فطرت انسانی کے خلاف ہے کیونکہ اس سے حقوق العباد کی ادائیگی میں خرابی پیدا ہو گی، جسمانی کمزور ہوگی، معاش خراب ہوگا، وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا ہمیشہ روزہ رکھنا درست نہیں، چاہے وہ عیدین اور ایام تشریق کے روزے چھوڑ بھی دے کیونکہ مذکورہ بالا خرابیاں اس صورت میں بھی بعینہٖ موجود ہیں۔ اگرچہ فقہی طور پر اس کے جواز کی یہ کہہ کر گنجائش نکالی گئی ہے کہ پانچ ناغے ہونے سے حقیقتاً ہمیشہ کا روزہ نہ رہا۔ مگر فقہی موشگافیوں کے بجائے مصالح اور مفاسد کا لحاظ رکھنا اصل ہے۔ شریعت کے احکام میں یہ چیز صاف نظر آتی ہے، مثلا: کتے کا جوٹھا پلید ہے، بلی کا پاک۔ محفوظ پانی قلیل نجاست سے پلید ہو جاتا ہے، مگر کھلا پانی نہیں، وغیرہ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2381