الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب الصيام
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
68. بَابُ : ذِكْرِ اخْتِلاَفِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ حَفْصَةَ فِي ذَلِكَ
68. باب: اس باب میں حفصہ رضی الله عنہا کی حدیث کے ناقلین کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 2345
قَالَ قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ، قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ:" لَا يَصُومُ إِلَّا مَنْ أَجْمَعَ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے تھے کہ روزہ صرف وہی رکھے جس نے فجر سے پہلے روزہ کی پختہ نیت کر لی ہو۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2345]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم: 2333 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح موقوف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

سنن نسائی کی حدیث نمبر 2345 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2345  
اردو حاشہ:
(1) مندرجہ بالا روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت کبھی حضرت حفصہؓ کا اپنا قول بتایا جاتا ہے، کبھی رسول اللہﷺ کا فرمان اور کبھی ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول، اس لیے اس حدیث کے بارے میں محدثین مختلف ہیں۔ مشہور ائمہ حدیث، مثلاً: امام بخاری، امام ابوداؤد، امام نسائی، امام ترمنذی اور امام احمد رحمہم اللہ اس روایت کو موقوفاً صحیح سمجھتے ہیں، یعنی یہ حضرت حفصہ یا حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم کا اپنا قول ہے، رسول اللہﷺ سے مروی نہیں، جبکہ امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان، امام دارقطنی، امام ابن حزم اور امام حاکم رحمہم اللہ نے اسے مرفوع بھی صحیح قرار دیا ہے، یعنی یہ رسول اللہﷺ کا فرمان بھی ہے، بالفرض اگر اسے مرفوعاً صحیح تسلیم نہ بھی کیا جائے تب بھی یہ حکماً مرفوع ہی بنتی ہے کیونکہ حضرت حفصہؓ کے اس فتوے کی بنیاد اپنی رائے یا قیاس نہیں، یقینا اس کی بنیاد رسول اللہﷺ کا قول ہی ہو سکتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 21/ 247- 249) واللہ أعلم۔
(2) نفلی روزے کی نیت دن کے وقت بھی کی جا سکتی ہے۔
(3) فرض روزے کی نیت صبح صادق سے پہلے کر لینا ضروری ہے۔ گویا غروب آفتاب کے بعد سے لے کر صبح صادق کے طلوع ہونے سے پہلے تک نیت کی جا سکتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2345