ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن میرے پاس آئے، اور پوچھا: ”کیا تمہارے پاس کچھ (کھانے کو) ہے؟“ تو میں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”تو میں روزہ سے ہوں“، اس دن کے بعد پھر ایک دن آپ میرے پاس سے گزرے، اس دن میرے پاس تحفہ میں حیس ۱؎ آیا ہوا تھا، میں نے اس میں سے آپ کے لیے نکال کر چھپا رکھا تھا، آپ کو حیس بہت پسند تھا، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے حیس تحفے میں دیا گیا ہے، میں نے اس میں سے آپ کے لیے چھپا کر رکھا ہے، آپ نے فرمایا: ”لاؤ حاضر کرو، اگرچہ میں نے صبح سے ہی روزہ کی نیت کر رکھی ہے“(مگر کھاؤ گا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھایا، پھر فرمایا: ”نفلی روزہ کی مثال اس آدمی کی سی ہے جو اپنے مال میں سے (نفلی) صدقہ نکالتا ہے، جی چاہا دے دیا، جی چاہا نہیں دیا، روک لیا۔“[سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2324]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الصوم 26 (1701)، (تحفة الأشراف: 17578)، مسند احمد 6/49، 207، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الصوم32 (1154)، سنن ابی داود/الصوم72 (2455)، سنن الترمذی/الصوم35 (234) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: حیس ایک کھانا ہے جو کھجور، پنیر، گھی اور آٹے سے بنایا جاتا ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2324
اردو حاشہ: (1) حیس یہ عربوں میں ایک معروف کھانا تھا جو کھجور، پنیر اور گھی وغیرہ سے تیار کیا جاتا تھا۔ چونکہ کھانے مختلف ہوتے ہیں اور ہر قوم کے اپنے اپنے کھانے ہوتے ہیں، لہٰذا دوسری زبان میں ہر کھانے کا ترجمہ ممکن نہیں، خصوصاً جبکہ یہ کھانا ہمارے ہاں تیار ہی نہیں کیا جاتا تو اس کا نام کیسے ہوگا؟ (2) نفل روزے کو بلا وجہ ختم کیا جا سکتا ہے کیونکہ نفل عبادت انسان کی اپنی مرضی پر موقوف ہوتی ہے۔ ایسے روزے کی قضا ادا کرنا واجب نہیں کیونکہ جب اصل روزہ ہی نفل ہے تو قضا ادا کرنی کیسے واجب ہو سکتی ہے؟ البتہ جواز میں کوئی شبہ نہیں، جیسے وتر کہ نبی اکرمﷺ ان کی قضا ادا کیا کرتے تھے اور امت کو بھی اس کی ترغیب دی۔ (3) بعض اہل علم نے نفل روزے کی نیت کو نصف النہار سے قبل ضروری قرار دیا ہے تاکہ اکثر روزہ نیت کے ساتھ ہو اور یہ معقول بات ہے۔ (4) نبی اکرمﷺ کائنات کے زاہد اور متقی ترین انسان تھے۔ آپ کی نظر دنیاوی ملذذات کے بجائے ہمیشہ اخروی نعمتوں پر ہوتی تھی…ﷺ… (5) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم طعام وشراب میں نبی اکرمﷺ کو یاد رکھتے تھے۔ آپﷺ کو تحفے تحائف بھیج کر اپنی عقیدت ومحبت کا اظہار کرتے رہتے تھے۔ رضي اللہ عنهم ورضواعنه۔ (6) اچھے واعظ کی نشانی ہے کہ وہ مثالوں سے اپنی بات سامعین کے ذہنوں میں اچھی طرح نقش کر دیتا ہے۔ مثال سے بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے۔ (7) کوئی چیز نفلی صدقے کی نیت سے علیحدہ کرنا اور پھر اسے صدقہ نہ کرنا جائز ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2324