63. باب: آیت کریمہ: ”جو لوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہوں (اور وہ روزہ نہ رکھنا چاہیں) تو ان کا فدیہ یہ ہے کہ کسی مسکین کو دو وقت کا کھانا کھلائیں“ کی تفسیر۔
سلمہ بن الاکوع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت کریمہ: «وعلى الذين يطيقونه فدية طعام مسكين»”جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں (اور وہ روزہ نہ رکھنا چاہیں) تو ان کا فدیہ یہ ہے کہ کسی مسکین کو دو وقت کا کھانا کھلائیں“(البقرہ: ۱۸۴) نازل ہوئی تو ہم میں سے جو شخص چاہتا کہ وہ افطار کرے (کھائے پئے) اور فدیہ دیدے (تو وہ ایسا کر لیتا) یہاں کہ اس کے بعد والی آیت نازل ہوئی تو اس نے اسے منسوخ کر دیا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2318]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2318
اردو حاشہ: (1) فرضیت روزہ کے ابتدائی دور میں روزہ فرض تو تھا مگر کوئی شخص بلا عذر روزہ چھوڑنا چاہتا تو اسے اجازت تھی کہ روزہ نہ رکھے مگر اسے فدیہ دینا پڑتا تھا، پھر بعد میں دوسری آیت اتری: ﴿فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ﴾”تم میں سے جو شخص اس مہینے میں موجود ہو، وہ لازماً روزہ رکھے۔“ تو اس سے فدیہ والی رخصت ختم ہوگئی اور ہر تندرست اور گھر میں موجود شخص کے لیے روزہ رکھنا لازم ہوگیا، البتہ یہ رخصت اس شخص کے لیے باقی ہے جو انتہائی ضعیف ہونے کی وجہ سے روزہ نبھا نہیں سکتا اور اس کی قوت وصحت کی بھی کوئی امید نہیں۔ (2) قرآن میں نسخ ثابت ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے۔ (3) فرضت روزہ کا تدریجی حکم امت مسلمہ کی آسانی کے لیے تھا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2318