عبدالرحمٰن بن زید بن خطاب سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک ایسے دن میں جس میں شک تھا (کہ رمضان کی پہلی تاریخ ہے یا شعبان کی آخری) لوگوں سے خطاب کیا تو کہا: سنو! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی ہم نشینی کی، اور میں ان کے ساتھ بیٹھا تو میں نے ان سے سوالات کئے، اور انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم چاند دیکھ کر روزہ رکھو، اور چاند دیکھ کر افطار کرو، اور اسی طرح حج بھی کرو، اور اگر تم پر مطلع ابر آلود ہو تو تیس (کی گنتی) پوری کرو، (اور) اگر دو گواہ (چاند دیکھنے کی) شہادت دے دیں تو روزے رکھو، اور افطار (یعنی عید) کرو“۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2118]
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، و للحديث علة قادحة عند أحمد (4/ 321) رواه يحيي بن زكريا بن أبى زائدة عن الحجاج بن أرطاة (وهو ضعيف، مدلس) عن حسين بن الحارث الجدلي به. وحديث أبى داود (2339) يغني عنه. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 337
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2118
اردو حاشہ: (1)”مشکوک دن“ سے مراد شعبان کا تیسواں دن ہے کیونکہ اس کے بارے میں دونوں امکان ہوتے ہیں، شعبان کی تیسویں ہو یا رمضان المبارک کی یکم، خصوصاً جب چاند کا امکان تھا لیکن مطلع ابر آلود تھا، چاند نظر نہ آ سکا۔ (2)”چاند نظر نہ آئے“ بادل، غبار یا دھواں وغیرہ کی وجہ سے۔ (3)”دو شخص گواہی دیں۔“ دو شخص تب ضروری ہیں جب مطلع بالکل صاف ہو کیونکہ ایسی صورت میں زیادہ اشخاص کے دیکھنے کا امکان ہوتا ہے، البتہ اگر مطلع ابر آلود ہو تو ایک شخص کی گواہی بھی کافی ہے جیسا کہ پیچھے حدیث میں بیان ہوا، کیونکہ ایسی صورت میں عموماً نظر آنے کا امکان نہیں ہوتا، ایک آدھ کو نظر آنا بھی غنیمت ہوتا ہے، اس طرح احادیث میں تطبیق ہو جائے گی اور تطبیق ہی بہتر ہوتی ہے، البتہ عید کے لیے دو گواہ ضروری ہیں۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2118