انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے کہ وہ ہم سے اہل بدر کے سلسلہ میں بیان کرنے لگے، اور کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (کافروں کے) مارے جانے کی جگہیں ایک دن پہلے دکھلا دیں، اور فرمایا: ”اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو کل فلاں کے پچھاڑ کھا کر گرنے کی جگہ یہاں ہو گی، اور فلاں کی یہاں“، عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا! ان جگہوں میں کوئی فرق نہیں آیا، چنانچہ انہیں ایک کنویں میں ڈال دیا گیا، (پھر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے، (اور) پکارا: ”اے فلاں، فلاں کے بیٹے! اے فلاں، فلاں کے بیٹے! کیا تم سے تمہارے رب نے جو وعدہ کیا تھا اسے صحیح پایا؟ میں نے تو اللہ نے جو وعدہ مجھ سے کیا تھا اسے صحیح پایا“، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ ایسے جسموں سے بات کر رہے ہیں جن میں روح نہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو میں کہہ رہا ہوں اسے تم ان سے زیادہ نہیں سنتے“۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2076]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2076
اردو حاشہ: (1) کفار کی ہلاکت گاہوں کا تعین وحی سے تھا، لہٰذا ہر مقتول آپ کی بیان کردہ جگہ ہی میں مرا۔ (2) کنویں میں انھیں پھینکنا تعفن سے بچنے کے لیے تھا، نیز اس میں کچھ ان کے جسموں کی حفاظت بھی تھی۔ معلوم ہوا کافر کی لاش کو بھی محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ (3)”بلند آواز سے پکارا“ روایت کے ظاہر الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان مقتولین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سنے۔ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ مردے سنتے ہیں لیکن ان میں حس و حرکت نہیں ہوتی، یعنی جواب نہیں دے سکتے۔ جو اہل علم اس کے قائل نہیں ہیں، وہ اس حدیث میں سماع کو علم کے معنیٰ میں لیتے ہیں بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے تو یہ الفاظ آتے ہیں کہ آپ نے اسمع کے بجائے أعلم کے لفظ ہی ارشاد فرمائے تھے۔ دیکھیے، (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 3979) یعنی اب ان کو پتا چل چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے تھے۔ ان کے نزدیک أسمع کا لفظ سننے والے صحابی کی غلط فہمی ہے۔ مگر محققین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس توجیہ کو تسلیم نہیں کیا، اس لیے کہ وہ موقع پر موجود نہ تھیں جبکہ راویٔ حدیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ موقع کے گواہ ہیں، البتہ مجازاً ”سماع“ سے علم مراد لیا جا سکتا ہے کیونکہ سماع، علم کا سبب ہے۔ سبب بول کر مسبب مراد لینا بلغاء کے کلام میں عام ہے۔ بعض اہل علم نے کہا ہے اصل یہی ہے کہ مردے نہیں سنتے مگر اللہ تعالیٰ چاہے تو انھیں کبھی کبھار کوئی بات سنا سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں بھی اللہ تعالیٰ نے انھیں سنا دیں تاکہ ان کی ندامت، حسرت، افسوس اور عذاب میں اضافہ ہو۔ حضرت قتادہ نے یہی مفہوم مراد لیا ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 3976) تمام نصوص کو تسلیم کرنے کے لیے یہ توجیہ بہت مناسب ہے۔ ورنہ کسی نہ کسی نص کا انکار لازم آئے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2076