محمد بن علی الباقر کہتے ہیں کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما بیٹھے تھے کہ ایک جنازہ گزرا تو لوگ کھڑے ہو گئے یہاں تک کہ جنازہ گزر گیا، تو حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک یہودی کا جنازہ گزرا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی راستے میں بیٹھے تھے تو آپ نے ناپسند کیا کہ ایک یہودی کا جنازہ آپ کے سر سے بلند ہو تو آپ کھڑے ہو گئے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1928]
وضاحت: ۱؎: یہ تاویل حسن رضی الله عنہ کی ہے جو ان کے ذہن میں آئی، لیکن احادیث سے جو بات سمجھ میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ اس کی وجہ موت کی ہیبت اور اس کی سنگینی تھیں جیسا کہ «إن للموت فزعاً» والی روایت سے ظاہر ہے، نیز یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی متعدد وجہیں رہی ہوں، ان میں سے ایک یہ بھی ہو کیونکہ ایک روایت میں ہے: ہم فرشتوں کی تکریم میں کھڑے ہوئے ہیں نہ کہ جنازہ کی۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1928
1928۔ اردو حاشیہ: یہ روایت سابقہ روایات سے مختلف ہے۔ ان میں تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کھڑے ہونے کے قائل و فاعل ہیں، اور اس روایت میں اس کے خلاف ہیں۔ کثرت کی بنا پر ان روایات کو ترجیح ہو گی، نیز یہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا اپنا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وجہ سے کھڑے ہئے تھے، ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اور وجہ بتلائی ہے۔ حدیث: 1922 میں ألیس نفسا اور حدیث نمبر 1923 میں إن للموت فزعا فرمایا۔ اور حدیث: 1931 میں آ رہا ہے کہ ہم فرشتوں کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ وجوہات معتبر ہیں نہ کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا اپنا خیال۔ بالفرض یہ وجہ بھی ہو تو مذکورہ بالا وجوہات تو پھر بھی قائم ہیں، لہٰذا صحیح یہی ہے کہ جنازہ آتا دیکھ کر کھڑے ہونا چاہیے، یہ افضل اور مستحب ہے، اگرچہ بیٹھے رہنے کی بھی گنجائش ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1928