عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو جہر سے قرآن پڑھتا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو اعلان کر کے صدقہ کرتا ہے، اور جو آہستہ قرآن پڑھتا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو چھپا کر چپکے سے صدقہ کرتا ہے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1664]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1664
1664۔ اردو حاشیہ: ظاہراً حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید آہستہ پڑھنا افضل ہے کیونکہ چھپا کر صدقہ کرنا قطعاً افضل ہے۔ (وان تخفوھا وتوتوھا الفقراء فھوا خیرلکم)(البقرہ2: 271) مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تہجد میں آہستہ قرأت کرتے ہوئے دیکھا تو حکم دیا تھا کہ ”کچھ اونچا پڑھا کرو۔“ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بہت اونچا پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا تھا: ”کچھ آہستہ پڑھا کرو۔“ نیز اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں قرأت کے متعلق فرمایا: (ولاتجہر بصلاتک ولا تخافت بھا وابتغ بین ذلک سبیلا)(بنی اسرائیل17: 110)”اپنی نماز کی قرأت سے نہ تو بہت (بلند) آواز سے کریں اور نہ بالکل آہستہ، بلکہ ان دونوں کے مابین کی راہ اختیار کریں۔“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ درمیانی آواز سے پڑھنا افضل ہے اور یہی بات درست ہے۔ باب والی حدیث میں بلند آواز سے مراد بہت زیادہ بلند آواز ہو گی جس میں ریاکاری کا بھی احتمال ہے اور وہ دوسرے نمازیوں، آرام کرنے والوں اور مریضوں کے لیے بھی تکلیف و تشویش کا باعث ہو گی یا جب جہر میں ریاکا خطرہ ہو تو اس وقت آہستہ افضل ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1664