وہب بن کیسان کہتے ہیں کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہم کے دور میں دونوں عیدیں ایک ہی دن میں جمع ہو گئیں، تو ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے نکلنے میں تاخیر کی یہاں تک کہ دن چڑھ آیا، پھر وہ نکلے، اور انہوں نے خطبہ دیا، تو لمبا خطبہ دیا، پھر وہ اترے اور نماز پڑھی۔ اس دن انہوں نے لوگوں کو جمعہ نہیں پڑھایا یہ بات ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بیان کی گئی تو انہوں نے کہا: انہوں نے سنت پر عمل کیا ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1593]
وضاحت: ۱؎: صحیح صورت حال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اہل مدینہ کے ساتھ جمعہ پڑھا بھی اور انہیں پڑھایا بھی، ہاں دور سے آنے والے لوگوں کو جمعہ میں آنے سے رخصت دے دی، آپ نے فرمایا تھا: «نحن مجمعون» یعنی ہم تو جمعہ پڑھیں گے، (ابوداؤد، ابن ماجہ من حدیث ابوہریرہ وابن عباس) نیز ابھی حدیث رقم ۱۵۹۰ میں گزرا کہ ”جب عید اور جمعہ ایک ہی دن آ پڑتے تھے تو آپ «سبح اسم ربك الأعلى» اور «هل أتاك حديث الغاشية» دونوں میں پڑھا کرتے تھے“۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1593
1593۔ اردو حاشیہ: یہاں سنت سے مراد رخصت ہے۔ چونکہ رخصت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے ثابت ہے، لہٰذا اسے سنت کہا:۔ ورنہ آپ کی سنت، یعنی عمل تو عید کے بعد جمعہ پڑھنا اور پڑھانا ہے۔ عمل بھی آپ کی سنت ہی پر کرنا چاہیے۔ اگرچہ رخصت کی گنجائش ہے مگر فرداً نہ کہ اجتماعاً۔ سنن ابی داود اور سنن ابن ماجہ کی روایت میں صراحت ہے کہ ہم جمعہ قائم کریں گے۔ (سنن ابی داود، الصلاۃ، حدیث: 1073، وسنن ابن ماجہ، اقامۃ الصلوات والسنۃ فیھا، حدیث: 1311)، لہٰذا جمعہ قائم ہونا چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1593