الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب صلاة العيدين
کتاب: عیدین (عیدالفطر اور عیدالاضحی) کی نماز کے احکام و مسائل
30. بَابُ : ذَبْحُ الإِمَامِ يَوْمَ الْعِيدِ وَعَدَدُ مَا يَذْبَحُ
30. باب: عید الاضحی کے دن امام کے ذبح کرنے کا اور ذبیحوں کی تعداد کا بیان۔
حدیث نمبر: 1590
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنِ اللَّيْثِ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ فَرْقَدٍ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَذْبَحُ أَوْ يَنْحَرُ بِالْمُصَلَّى.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ ہی میں ذبح یا نحر کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1590]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/العیدین 22 (982)، الأضاحي 6 (5552)، سنن ابن ماجہ/الأضاحي 17 (3161)، (تحفة الأشراف: 8261)، مسند احمد 2/108، ویأتی عند المؤلف برقم: 4371 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

سنن نسائی کی حدیث نمبر 1590 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1590  
1590۔ اردو حاشیہ: لوگوں کے سامنے یا عیدگاہ میں قربانی ذبح کرنے کا مقصد لوگوں کو قربانی پر ابھارنا ہے۔ قول کے بعد عملاً بھی، لہٰذا یہ مستحب ہے مگر لازم نہیں۔ اسی طرح دو جانور ذبح کرنا بھی ضروری نہیں، ایک بھی کافی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جانور اپنی اور اپنے آل کی طرف سے اور ایک اپنی امت کی طرف سے ذبح فرمایا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، الاضاحی، حدیث: 1967) امت کی طرف سے قربانی کی بابت بعض علماء یوں فرماتے ہیں کہ وہ آپ کا خاصہ ہے جس میں امت کے لیے آپ کی اقتدا جائز نہیں۔ دیکھیے: (ارواءالغلیل: 4؍354) امام پر قربانی تبھی ہے اگر وہ قربانی کی طاقت رکھتا ہو۔ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک ایسے امام کے پیچھے نماز عید نہیں پڑھنی چاہیے جو قربانی نہیں کر سکتا یا نہیں کرتا مگر جمہور اہل علم اس کے قائل نہیں کیونکہ امامت کے لیے تقویٰ اور علم اور شرط ہیں، نہ کہ مالدار ہونا۔ بہرصورت امام قربانی کرنے والا ہو اور علانیہ لوگوں کے سامنے قربانی کرے تو اچھی بات ہے۔ واللہ اعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1590