سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کے زمانے میں جمعہ کے دن پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جس وقت امام منبر پر بیٹھتا، پھر جب عثمان رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا، اور لوگ بڑھ گئے تو انہوں نے جمعہ کے دن تیسری اذان کا حکم دیا ۱؎، وہ اذان مقام زوراء پر دی گئی، پھر اسی پر معاملہ قائم رہا۔ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1393]
وضاحت: ۱؎: تکبیر کو شامل کر کے تیسری اذان ہوئی، یہ ترتیب میں پہلی اذان ہے جو خلیفہ راشد عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سنت ہے، دوسری اذان اس وقت ہو گی جب امام خطبہ دینے کے لیے منبر پر بیٹھے گا، اور تیسری اذان تکبیر ہے، اگر کوئی صرف اذان اور تکبیر پر اکتفا کرے تو اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کی سنت کی اتباع کی۔
الذي زاد التأذين الثالث يوم الجمعة عثمان بن عفان حين كثر أهل المدينة ولم يكن للنبي مؤذن غير واحد وكان التأذين يوم الجمعة حين يجلس الإمام يعني على المنبر
الأذان كان أوله حين يجلس الإمام على المنبر يوم الجمعة في عهد النبي وأبي بكر وعمر ما فلما كان خلافة عثمان وكثر الناس أمر عثمان يوم الجمعة بالأذان الثالث فأذن به على الزوراء فثبت الأمر على ذلك
الأذان كان أول حين يجلس الإمام على المنبر يوم الجمعة في عهد رسول الله وأبي بكر وعمر فلما كان في خلافة عثمان وكثر الناس أمر عثمان يوم الجمعة بالأذان الثالث فأذن به على الزوراء فثبت الأمر على ذلك
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1393
1393۔ اردو حاشیہ: ➊ اس روایت میں پہلی اذان سے مراد وہ اذان ہے جو خطبۂ جمعہ کے آغاز میں کہی جاتی ہے۔ آج کل اسے دوسری اذان کہا جاتا ہے۔ حدیث میں مذکور تیسری اذان سے مراد وہ اذان ہے جو خطبے کی اذان سے کچھ دیر قبل کہی جاتی ہے تاکہ لوگ جمعے کی تیاری کر لیں۔ آج کل اسے پہلی اذان کہا جاتا ہے۔ اس روایت میں اقامت کو بھی اذان کہا گیا ہے تبھی خطبے کی اذان کو پہلی اذان کہا گیا ہے۔ گویا اقامت دوسری اذان تھی۔ ➋ ”لوگ زیادہ ہو گئے“ مدینہ منورہ کی آبادی آہستہ آہستہ بڑھ گئی اور مسلمانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گیا تھا جب کہ خطبۂ جمعہ صرف مسجد نبوی ہی میں ہوتا تھا۔ اگر ایک ہی اذان (اذان خطبہ) ہوتی تو شہر کے اطراف سے آنے والے نمازی خطبۂ جمعہ بلکہ نماز جمعہ سے بھی محروم رہ جاتے۔ پھر جمعے کے دن بازار لگتا تھا، لوگ خرید و فروخت میں مشغول ہوتے۔ گھڑیاں تھی نہیں۔ جمعے کے وقت کا محق اندازہ کرتے تھے، اس میں غلطی اور تاخیر کے قوی احتمالات تھے، لہٰذا وہیں بازار میں زوراء پر وقت سے اتنی دیر پہلے اذان کہی جاتی تھی کہ اسے سن کر خریدار جلدی جلدی ضرورت کی چیز خرید کر اور دکاندار سامان سمیٹ کر گھر واپس جائیں۔ پھر غسل اور وضو کریں، کپڑے بدلیں، خوشبو لگائیں اور خطبے سے پہلے پہلے مسجد نبوی میں آکر حسب توفیق نماز پڑھیں۔ ان تفصیلات کو سامنے رکھتے ہئے آج کل خطبے کی اذان سے صرف 15، 20 منٹ پہلے، وہ بھی مسجد کے اندر کہی جاتی ہے، اس کے بارے میں غور کریں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اذان سے اس کا کیا تعلق ہے؟ اور دونوںمیں کون سی مناسبت ہے؟ مزید یہ کہ آج کل گھڑیوں وغیرہ سے یہ ضرورت پوری ہوتی ہے۔ بہرحال حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مذکورہ ضرورت کے تحت ایک اذان کا اضافہ فرمایا اور ان کے پاس اس اذان کی نظیر موجود تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں صبح کی دو اذانیں ہوتی تھیں۔ ایک وقت پر اور ایک وقت سے پہلے تاکہ زیادہ مصروفیت والے لوگ پہلی اذان پر اٹھ کھڑے ہوں اور جماعت کے ساتھ مل سکیں۔ ایک اذان کی صورت میں بہت سے لوگ جماعت سے رہ جاتے، لہٰذا ایک اذان وقت سے کچھ دیر قبل کہی جاتی تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسی کو مدنظر رکھ کر خطبے سے پہلے ایک اذان کا اضافہ فرمایا جسے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے قبول فرمایا اور آہستہ آہستہ یہ تمام عالم اسلام میں رائج ہو گئی۔ اور یہ سنت المسلمین بن گئی جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر ہر دور کے مجتہدین اور ائمہ کا اجماع میسر رہا ہے۔ گویا یہ اذان ضرورت ہے، خلیفۂ راشد کی سنت ہے اور اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر اب تک اجماع ہے، لہٰذا مذکورہ بالا پس منظر مدنظر رکھ کر اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ «فعلیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین»(سنن أبي داود، السنۃ، حدیث: 4607)، البتہ اگر کہیں ضرورت محسوس نہ ہو تو ایک ہی اذان پر اکتفا کرنا بہتر ہے کیونکہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خلیفہ اول و ثانی، ابوبکر اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما کا عمل بھی یہی تھا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا اس (پہلی اذان) کو بدعت کہنا لغوی معنی کے لحاظ سے ہے، جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح کی جماعت کو بدعت کہا: تھا، حالانکہ انہوں نے خود اس کو مستقلاً رائج کیا تھا۔ واللہ أعلم۔ ➌ ”زوراء“ بازار میں ایک بلند مکان تھا۔ وہاں یہ اذان کہی جاتی تھی تاکہ بلندی کی وجہ سے سارے مدینہ منورہ میں اذان سنائی دے کیونکہ اس (جمعہ) میں سب اہل مدینہ کی شمولیت ضروری تھی بخلاف دیگر نمازوں کے کہ وہ ہر محلے کی مقامی مساجد میں بھی باجماعت پڑھی جاتی تھیں۔ ➍ ”جاری ہو گیا“ کیونکہ وہ خلیفۂ راشد تھے، لہٰذا لوگوں نے اسے قبول کر لیا۔ بعض روایات کے مطابق مکہ مکرمہ میں حجاج کے دور میں شروع ہوئی اور بصرہ میں زیاد کے دور میں۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1393
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1087
´جمعہ کے دن اذان دینے کا بیان۔` سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ کے دن پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا، پھر جب عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت ہوئی، اور لوگوں کی تعداد بڑھ گئی تو جمعہ کے دن انہوں نے تیسری اذان کا حکم دیا، چنانچہ زوراء ۱؎ پر اذان دی گئی پھر معاملہ اسی پر قائم رہا ۲؎۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1087]
1087۔ اردو حاشیہ: اصل اذان جو کہ امام کہ منبر پر بیٹھنے کے وقت کی ہے پہلی اذان ہے۔ اور اقامت یعنی جماعت کے لئے تکبیر کو دوسری اذان کہا گیا ہے اور خطبہ شروع ہونے سے کچھ وقت پہلے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لئے جو اذان شروع کرائی گئی وہ تیسری اذان ہوئی۔ جو کہ عملاً پہلی مگر رتبہ میں تیسری ہے اسے عرف عام میں دوسری اذان اور تاریخی لحاظ سے ”اذان عثمانی“ کہتے ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی اکثریت نے اسے قبول کیا ہے اور یہ عالم اسلام میں اسی دور سے جاری و ساری ہے۔ یہ اذان لوگوں کو متنبہ کرنے کے لئے تھی جیسے کہ اذان فجر سے کچھ پہلے متنبہ کرنے کے لئے دور نبوت میں اذان کہلوائی گئی۔ ابن ابی شیبہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اس اذان کو بدعت کہا ہے۔ اصحاب الحدیث کے ہاں ایسے مسائل میں توسع ہے افضل اور راحج یہی ہے کہ دور نبوت کا عمل اختیار کیا جائے۔ حسب ضرورت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا معمول اپنا لینے میں بھی کوئی حرج نہیں، ویسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ اذان مسجد نبوی سے ایک میل دور مقام زورا میں کہلوائی تھی، وہاں بازار لگتا تھا اور لوگوں کو نماز کے وقت کا علم نہیں ہوتا تھا۔ یہ اذان اتنی پہلے کہی جاتی تھی کہ لوگ یہ اذان سن کر سامان سمیٹتے، گھر جاتے، غسل اور وضو کر کے لباس بدل کر خطبہ شروع ہونے سے پہلے مسجد نبوی میں آ جاتے۔ لہٰذا اگر، اذان عثمانی ہی کہلانی ہو تو اس پس منظر کو ملحوظ رکھنا چاہیے، ورنہ خطبے سے چند منٹ پہلے امام کے منہ کے سامنے کھڑے ہو کر اذان کہنا اذان عثمانی کی متابعت ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ یہ طبع زاد اور ایجاد بند ہ ہے۔ «زورا»”زاء“ کی فتحہ ”واؤ“ ساکن اور آخر میں ”الف“ ممدودہ۔ زورا بازار مدینہ کے قریب ایک جگہ کا نام تھا جو مسجد نبوی سے کوئی ایک میل کے فاصلے پر تھی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1087
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 516
´جمعہ کی اذان کا بیان۔` سائب بن یزید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کے زمانے میں (پہلی) اذان اس وقت ہوتی جب امام نکلتا اور (دوسری) جب نماز کھڑی ہوتی ۱؎ پھر جب عثمان رضی الله عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے زوراء ۲؎ میں تیسری اذان کا اضافہ کیا ۳؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجمعة/حدیث: 516]
اردو حاشہ: 1؎: یہاں دوسری اذان سے مراد اقامت ہے۔
2؎: زوراء مدینہ کے بازار میں ایک جگہ کا نام تھا۔
3؎: عثمان رضی اللہ عنہ نے مسجد سے دور بازار میں پہلی اذان دلوائی، اور فی زمانہ لوگوں نے یہ اذان مسجد کے اندر کر دی ہے اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ اذان عثمان رضی اللہ عنہ کی سنت ہے، اگر کہیں واقعی اس طرح کی ضرورت موجود ہو تو اذان مسجد سے باہر دی جائے، ویسے اب مائک کے انتظام اور اکثر لوگوں کے ہاتھوں میں گھڑیوں کی موجودگی کے سبب اس طرح کی اذان کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ گئی، جس ضرورت کے تحت عثمان رضی اللہ عنہ یہ زائد اذان دلوائی تھی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 516
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 912
912. حضرت سائب بن یزید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کے زمانے میں جمعے کے دن پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا لیکن حضرت عثمان ؓ کے دور میں جب لوگ زیادہ ہو گئے تو آپ نے مقام زوراء پر تیسری اذان کا اضافہ فرما دیا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؓ) کہتے ہیں کہ زوراء مدینہ کے بازار میں واقع ایک جگہ کا نام ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:912]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ اصل اذان وہی تھی جو آنحضرت ﷺ وشیخین کے مبارک زمانوں میں امام کے منبر پر آنے کے وقت دی جاتی تھی۔ بعد میں حضرت عثمان ؓ نے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے بازار میں ایک اذان کا اور اضافہ کر دیا۔ تاکہ وقت سے لوگ جمعہ کے لیے تیار ہو سکیں۔ حضرت عثمان ؓ کی طرح بوقت ضرورت مسجد سے باہر کسی مناسب جگہ پر یہ اذان اگر اب بھی دی جائے تو جائز ہے مگر جہاں ضرورت نہ ہو وہاں سنت کے مطابق صرف خطبہ ہی کے وقت خوب بلند آواز سے ایک ہی اذان دینی چاہیے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 912
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 913
913. حضرت سائب بن یزید ؓ سے روایت ہے کہ جب اہل مدینہ کی آبادی زیادہ ہو گئی تو اس وقت جمعہ کے دن تیسری اذان کا اہتمام کرنے والے حضرت عثمان ؓ تھے۔ اور نبی ﷺ کا تو ایک ہی مؤذن تھا۔ اور جمعہ کے دن اس وقت اذان دی جاتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:913]
حدیث حاشیہ: اس سے ان لوگوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ جب منبر پر جاتے توتین مؤذن ایک کے بعد ایک اذان دیتے۔ ایک مؤذن کا مطلب یہ کہ جمعہ کی اذان خاص ایک مؤذن حضرت بلال ؓ ہی دیا کرتے تھے ورنہ ویسے تو عہد نبوی میں کئی مؤذن مقرر تھے جو باری باری اپنے وقتوں پر اذان دیا کرتے تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 913
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:912
912. حضرت سائب بن یزید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کے زمانے میں جمعے کے دن پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا لیکن حضرت عثمان ؓ کے دور میں جب لوگ زیادہ ہو گئے تو آپ نے مقام زوراء پر تیسری اذان کا اضافہ فرما دیا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؓ) کہتے ہیں کہ زوراء مدینہ کے بازار میں واقع ایک جگہ کا نام ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:912]
حدیث حاشیہ: (1) صحیح ابن خزیمہ میں یہ الفاظ ہیں: ”وہ اذان جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کیا ہے جمعہ کے دن اس وقت ہوتی تھی جب امام خطبے کے لیے تشریف لے آتا۔ “(صحیح ابن خزیمه: 136/3) ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ کے عہد میں دو اذانیں ہوتی تھیں۔ (صحیح ابن خزیمة: 137/3) امام ابن خزیمہ ؒ وضاحت کرتے ہیں کہ ان اذانوں سے مراد اذان خطبہ اور اقامت نماز ہے۔ چونکہ اذان خطبہ غیر موجود لوگوں کو اطلاع اور اقامت، حاضرین کو آگاہ کرنے کے لیے کہی جاتی ہے، اس لیے دونوں کو اذان کہہ دیا جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے۔ اس سے مراد بھی اذان اور اقامت ہے۔ (صحیح ابن خزیمة: 137/3)(2) عثمانی اذان اضافے کے اعتبار سے تیسری اور ترتیب کے لحاظ سے پہلی ہے۔ بعض روایات میں اسے اذان ثانی سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث: 915) حقیقی اذان نبوی کے مقابلے میں اسے دوسری اذان کہا جاتا ہے اگرچہ ترتیب کے اعتبار سے اذان عثمانی پہلی ہے۔ روایات میں عام طور پر اذان نبوی کا وقت بتایا گیا ہے کہ جب امام منبر پر فروکش ہو جاتا تو اذان کہی جاتی تھی، محل کا ذکر نہیں ملتا۔ محل اذان کے متعلق معجم طبرانی میں حدیث ہے: (كان النداء علی عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم و أبي بكر و عمر عند المنبر) ”رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر و عمر ؓ کے زمانے میں اذان (جمعہ) منبر کے پاس ہوتی تھی۔ “(المعجم الکبیر للطبراني: 146/7) اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ائمہ اربعہ کے ہاں بھی اسی پر عمل ہے۔ (3) اس سلسلے میں جمعے کے لیے پہلی اذان کا مسئلہ بھی قابل توجہ ہے۔ اس کے متعلق ہماری گزارش یہ ہے کہ مذکورہ بالا حدیث بخاری سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر ؓ کے زمانے میں جمعے کے لیے صرف ایک ہی اذان دی جاتی تھی، وہ بھی اس وقت کہی جاتی تھی جب خطیب منبر پر بیٹھ جاتا تھا، پھر حضرت عثمان ؓ نے لوگوں کی کثرت کے باعث بازار میں ایک اونچے مقام (زوراء) پر ایک اذان کا اضافہ صرف اس لیے کیا تھا تاکہ لوگوں کو بآسانی خبردار کیا جا سکے۔ اسے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی اکثریت نے اختیار کر لیا۔ اگر آج بھی ایسے حالات ہوں تو اس عمل کو مباح قرار دیا جا سکتا ہے لیکن عصر حاضر میں تقریبا ہر مسجد میں لاؤڈ سپیکر موجود ہوتا ہے جس کے ذریعے سے دور دراز علاقوں میں اذان کی آواز پہنچانا کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ ان حالات میں کسی ہنگامی اذان کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی، لہذا حضرت عثمان ؓ کے عمل سے پہلی اذان کو جواز کشید کرنا محل نظر ہے۔ یہ دعویٰ کرنا کہ پہلی اذان کے جواز پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع سکوتی ہے۔ یہ بھی غوروفکر کا متقاضی ہے کیونکہ حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ جمعہ کے دن پہلی اذان کہنا بدعت ہے۔ (المصنف لابن أبي شیبة: 470/3) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے یہ بات علی سبیل انکار کہی تھی اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے آپ کی مراد انکار نہ ہو بلکہ تحسین کے طور پر ایسا کہا ہو کہ اگرچہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں یہ اذان نہیں تھی، تاہم ایک اچھا عمل ہے جسے ایک ہنگامی ضرورت کے پیش نظر شروع کیا گیا ہے۔ (فتح الباري: 507/2) ہمارے نزدیک پہلا احتمال راجح ہے کیونکہ حضرت علی ؓ نے دارالحکومت کوفہ میں اسے ختم کر کے اذان نبوی ہی کو برقرار رکھا۔ (تفسیر القرطبي: 100/18) اس کے علاوہ حافظ ابن حجر ؓ نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ نویں صدی ہجری کے نصف تک مغرب ادنیٰ (تونس و طرابلس) کے علاقے میں جمعہ کے لیے صرف ایک اذان دینے کا اہتمام تھا۔ (فتح الباري: 507/2) امام شافعی ؒ جمعہ کی اذان کے متعلق عہد رسالت ہی کے طرز عمل کو زیادہ پسند کرتے تھے۔ (کتاب الأم: 195/1) واضح رہے کہ ہم جمعہ کے لیے پہلی اذان کو بدعت بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ خلیفۂ راشد سیدنا عثمان ؓ نے یہ اذان دوسری نمازوں پر قیاس کرتے ہوئے شروع کی تھی، وہ اس طرح کہ کسی بھی نماز کے لیے اذان اس لیے دی جاتی ہے تاکہ لوگوں کو نماز کے وقت سے خبردار کیا جا سکے۔ چونکہ لوگوں کی کثرت کے باعث جمعہ کے دن ایسا ممکن نہ تھا کہ ایک ہی اذان سے سب کو اطلاع ہو جائے اور ان کے دیر سے آنے کی وجہ سے اجر کے ضیاع کا بھی اندیشہ تھا، اس لیے انہوں نے پہلی اذان کا اہتمام کر دیا، لیکن جن حضرات کو اس کے جاری رکھنے پر اصرار ہے انہیں چاہیے کہ سنت عثمان پر عمل کرتے ہوئے بازار میں کسی اونچے مقام پر کھڑے ہو کر پہلی اذان دینے کا اہتمام کریں۔ ہمارے نزدیک تفصیل بالا کے پیش نظر سنت نبوی کے مطابق جہاں ایک اذان دینے کا عمل ہے وہاں اسے برقرار رہنا چاہیے، کسی خاص مکتب فکر کے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اس نبوی طرز عمل کو بدلنا قطعاً مستحسن نہیں، البتہ جہاں دو اذانیں ہوتی ہیں وہاں دیکھا جائے کہ اگر کسی قسم کے فتنہ و فساد کا اندیشہ نہ ہو تو وہاں ایک اذان پر اکتفا کیا جائے۔ اگر حالات سازگار نہ ہوں تو ان کے سازگار ہونے تک دونوں اذانوں کو برقرار رکھنے کی گنجائش موجود ہے لیکن سنت نبوی پر عمل کرنے کے لیے ذہن سازی کرتے رہنا اولین فریضہ ہونا چاہیے، اس بنا پر ایسے معاملات کو باہمی اختلاف و جدال کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 912
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:913
913. حضرت سائب بن یزید ؓ سے روایت ہے کہ جب اہل مدینہ کی آبادی زیادہ ہو گئی تو اس وقت جمعہ کے دن تیسری اذان کا اہتمام کرنے والے حضرت عثمان ؓ تھے۔ اور نبی ﷺ کا تو ایک ہی مؤذن تھا۔ اور جمعہ کے دن اس وقت اذان دی جاتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:913]
حدیث حاشیہ: (1) ابن حبیب وغیرہ کا موقف ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب منبر پر تشریف رکھتے تو یکے بعد دیگرے تین مؤذن اذان دیا کرتے تھے اور تیسرے کی اذان سے فراغت کے بعد رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو کر خطبہ شروع فرماتے۔ امام بخاری ؒ نے اسی موقف کی تردید کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے۔ یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔ (فتح الباري: 508/2) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ لکھتے ہیں کہ حرمین میں یہ رواج ہے کہ جمعہ کے دن اور دوسرے ایام میں بھی کئی مؤذن جمع ہو کر بلند آواز سے اذان دیتے ہیں۔ یہ دستور رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں نہیں تھا کیونکہ عہد رسالت میں ایک ہی مؤذن اذان دیتا تھا، تاہم اس عمل کو بدعت اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ اس کی بنیاد موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن زید بن عبد ربہ کو فرمایا تھا کہ وہ اذان کے کلمات حضرت بلال پر القا کریں۔ اس طرح دونوں حضرات بلند آواز سے اذان کہتے تھے۔ (شرح تراجم بخاری) شاہ ولی اللہ ؒ کی بات اس لیے محل نظر ہے کہ حضرت بلال ؓ کو اذان سکھانے کا معاملہ صرف ایک مرتبہ ہوا تھا، ہر اذان کے موقع پر یہ عمل نہیں دہرایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ آج کل حرمین میں ایک ہی مؤذن اذان دیتا ہے، بیک وقت متعدد اذانین دینے کا عمل متروک ہو چکا ہے۔ (2) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے تیسری اذان دینے کا اہتمام کیا تھا۔ آپ نے حکم دیا تھا کہ اذان دینے والے مسجد سے باہر اذان دیں تاکہ لوگوں کو وقت جمعہ کا پتہ چل جائے، نیز آپ نے یہ بھی حکم دیا تھا کہ اذان خطبہ منبر کے پاس کہی جائے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کے دور میں معمول تھا۔ آپ نے فرمایا کہ ہم نے اس تیسری اذان کا اہتمام اس لیے کیا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہو چکی ہے۔ لیکن یہ روایت صحیح نہیں کیونکہ حضرت معاذ ؓ سے بیان کرنے والے حضرت مکحول ہیں، ان دونوں کے درمیان انقطاع ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ تیسری اذان کا اہتمام حضرت عثمان ؓ نے فرمایا تھا جیسا کہ صحیحین وغیرہ میں ہے۔ (فتح الباري: 507/2) واللہ أعلم۔ (3) عہد رسالت میں حضرت ابو محذورہ اور حضرت سعد القرظی ؓ بھی اذان دیا کرتے تھے لیکن مسجد نبوی میں ان کا اذان دینا ثابت نہیں بلکہ وہ اپنے اپنے قبیلے کی مساجد میں اذان کے لیے تعینات تھے۔ حضرت ابن ام مکتوم ؓ کا نام بھی اذان دینے والوں میں ملتا ہے لیکن وہ صرف صبح کی دوسری اذان کہتے تھے، دیگر اذانوں کے لیے صرف سیدنا بلال ؓ تعینات تھے جیسا کہ حضرت سائب بن یزید ؓ فرماتے ہیں جمعہ اور غیر جمعہ کی تمام نمازوں کے لیے ایک ہی مؤذن ہوا کرتا تھا، وہی اذان دیتا اور تکبیر کہتا۔ آپ نے فرمایا کہ حضرت بلال ؓ جمعہ کے لیے اس وقت اذان کہتے جب رسول اللہ ؓ منبر پر تشریف فرماتے اور جب منبر سے اترتے تو تکبیر کہتے۔ (دیکھیے ترجمۃ الباب والی حدیث)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 913