یزید بن اسود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز فجر پڑھی، جب نماز پڑھ چکے تو آپ نے اپنا رخ پلٹ کر مقتدیوں کی طرف کر لیا۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1335]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1335
1335۔ اردو حاشیہ: ➊ قبلے سے رخ موڑنا شاید اس لیے ہے کہ دور سے دیکھنے والے کو بھی نماز کے ختم ہونے کا علم ہو جائے۔ ویسے بھی امام کا مقتدیوں کی طرف بیٹھنا نماز کی حد تک تو مجبوری تھی، نماز کے بعد مناسب ہے کہ وہ لوگوں کی طرف منہ کر کے بیٹھے جیسے سردار لوگوں کے ساتھ بیٹھتا ہے، اس لیے امام کو اپنا رخ قبلے کی طرف سے بدل لینا چاہیے۔ پھر چاہے تو بالکل مقتدیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھے، خصوصاً ً اگر کوئی خطاب کرنا ہو اور چاہے تو دائیں یا بائیں منہ کر کے بیٹھ جائے۔ دائیں کو ترجیح دینا مستحسن ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عموماً دائیں جانب کو ترجیح دیتے تھے۔ ➋ اس حدیث کے معنیٰ یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ جب آپ نماز پڑھ چکے تو اٹھ کر گھر چلے گئے مگر نماز کے بعد دیر تک ذکر اذکار آپ کا معمول تھا، خصوصاً صبح کی نماز کے بعد۔ احادیث میں اس کی فضیلت بھی وارد ہے۔ ہو سکتا ہے کوئی کام ہو، اس لیے فوراًً چلے گئے لیکن یہ معنیٰ مراد لینے بعید ہیں کیونکہ یہ حجۃ الوداع کے موقع پر مسجد خیف کی بات ہے جیسا کہ حدیث: 859 میں گزر چکا ہے۔ اور مسند احمد کے الفاظ ہیں: «ثُم انحرَفَ جالسًا»”پھر آپ بیٹھے بیٹھے مڑے۔“[مسند أحمد: 4/161] لہٰذا پہلی بات ہی زیادہ درست معلوم ہوتی ہے۔ تاہم ضرورت کے پیش نظر امام فوراًً اٹھ کر بھی جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1335