عطاء بن یزید کہتے ہیں کہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ابوسعید کے پاس بیٹھا ہوا تھا، تو ان دونوں میں سے ایک نے شفاعت کی حدیث بیان کی، اور دوسرے خاموش رہے، انہوں نے کہا: فرشتے آئیں گے، شفاعت کریں گے، اور انبیاء و رسل بھی شفاعت کریں گے، نیز انہوں نے پل صراط کا ذکر کیا، اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”پل صراط پار کرنے والا سب سے پہلا شخص میں ہوں گا“ جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے فیصلوں سے فارغ ہو گا، اور جہنم سے جسے نکالنا چاہے گا نکال لے گا، تو اللہ فرشتوں کو اور رسولوں کو حکم دے گا کہ وہ شفاعت کریں، قابل شفاعت لوگ اپنی نشانیوں سے پہچان لیئے جائیں گے، آگ ابن آدم کی ہر چیز کھا جائے گی سوائے سجدہ کی جگہ کے، پھر ان پر چشمہ حیات کا پانی انڈیلا جائے گا، تو وہ اگنے لگیں گے جیسے سیلاب کے خش و خاشاک میں دانہ اگتا ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1141]
وضاحت: ۱؎: جس طرح سیلاب کے کوڑا کرکٹ میں دانہ اُگ کر جلد ہی ترو تازہ ہو جاتا ہے، اسی طرح یہ لوگ بھی اس پانی کی برکت سے بھلے چنگے ہو جائیں گے، اور آگ کے نشانات مٹ جائیں گے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1141
1141۔ اردو حاشیہ: ➊ صراط یا عرف عام میں پل صراط، جہنم کے اوپر رکھا جائے گا جس پر سے سب لوگ گزریں گے حتیٰ کہ انبیاء علیہم السلام بھی، مگر اعلیٰ درجے کے لوگوں کو جہنم کا پتہ تک بھی نہیں چلے گا جبکہ گناہ گاروں کو وہ صراط اور اس کی رکا وٹیں روکیں گی، کھینچیں گی، زخمی کریں گی۔ کچھ تو زخمی ہو کر نجات پا جائیں گے اور جنت میں چلے جائیں گے، باقی جہنم میں گر جائیں گے۔ کفار و منافقین تو ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بنے رہیں گے اور گناہ گار مومنین میلے سونے کی طرح آگ میں جلیں گے۔ جب گناہ اور ان کے اثرات جل جائیں گے اور نیکیاں باقی رہ جائیں گی تو انہیں نکال کر آب حیات میں، جو جنت سے لایا جائے گا، رکھا جائے گا۔ جب وہ جنتیوں جیسے خوب صورت ہو جائیں گے تو انہیں جنت میں لے جایا جائے گا جیسا کہ بھٹی میں سونے کے ساتھ ہوتا ہے۔ ➋ سیلابی کوڑا کرکٹ میں روئیدگی کی قوت بہت زیادہ ہوتی ہے، لہٰذا سیلاب ختم ہونے کے بعد اس کوڑا کرکٹ میں رہ جانے والے دانے بہترین اور بہت جلدی اور خوب صورت اگتے ہیں۔ اسی طرح جنت کا آب حیات آگ کے اثرات کو ختم کر کے انہیں چمکتے سونے کی طرح خوب صورت بنا دے گا تو پھر وہ جنت میں جائیں گے۔ ➌ جس طرح آگ سارا میل کچیل کھا جاتی ہے، سونے کو نہیں کھاتی، بالکل اسی طرح جہنم کی آگ گناہ اور گناہ کے اثرات کھائے گی۔ نیکی، ایمان اور ان کے اثرات نہیں کھا سکے گی، لہٰذا اس میں کوئی عقلی اشکال نہیں۔ بخلاف اس کے کافر چونکہ سراپا گناہ ہیں، لہٰذا جہنم انہیں ایندھن کی طرح مکمل طور پر جلائے گی۔ گویا کافر جلانے کے لیے جہنم میں ڈالے جائیں گے جب کہ گناہ گار مومن صفائی کے لیے، لہٰذا دونوں اسی فرق سے پہچانے جائیں گے۔ ➍ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم ادب کے کمال درجے پر فائز تھے کہ جب ایک بات کرتا تو دوسرے خاموشی سے سنتے اگرچہ انہیں پہلے سے اس بات کا پتہ ہوتا۔ ➎ رسولوں اور فرشتوں کے لیے شفاعت کا ثبوت۔ معتزلہ اور خوارج اس کا انکار کرتے ہیں۔ حدیث ان کے موقف کی تردید کرتی ہے۔ ➏ پل صراط کا ثبوت، نیز یہ کہ مومنین بھی اس پر سے گزریں گے۔ ➐ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کی فضیلت کا بیان کہ وہ تمام امتوں سے پہلے پل صراط سے گزرے گی۔ ➑ بعض مومن اپنے گناہوں کی سزا پانے کے لیے جہنم میں ڈالے جائیں گے، بعد میں اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے گا اور انہیں جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کرے گا۔ ➒ مومن لوگوں کے عذاب کی کیفیت کفار سے مختلف ہو گی کہ ان کے سارے جسم کو آگ جلائے گی جبکہ مومن کے اعضائے سجود آگ سے محفوظ رہیں گے اور یہی ان کی پہچان کی نشانی ہو گی۔ سفارشی انہیں اسی نشانی سے پہچان کر آگ سے نکالیں گے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1141