أخبرنا محمد بن رافع قال حدثنا عبد الله بن إبراهيم بن عمر بن كيسان قال حدثني أبي عن وهب بن مأنوس قال سمعت سعيد بن جبير قال سمعت أنس بن مالك يقول: ما رأيت أحدا أشبه صلاة بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم من هذا الفتى يعني عمر بن عبد العزيز فحزرنا في ركوعه عشر تسبيحات وفي سجوده عشر تسبيحات .
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ میں نے اس نوجوان یعنی عمر بن عبدالعزیز سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ نماز کسی کی نہیں دیکھی، تو ہم نے ان کے رکوع میں دس تسبیحوں کا، اور سجدے میں بھی دس تسبیحوں کا اندازہ لگایا۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1136]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الصلاة 154 (888)، (تحفة الأشراف: 859)، مسند احمد 3/162، وانظر حدیث رقم: 982 (ضعیف) (اس کے راوی ’’وہب‘‘ مجہول الحال ہیں، لیکن ’’عمر بن عبدالعزیز‘‘ کی نماز کے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی نماز سے مشابہ ہونے کی تائید ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث ہے (رقم: 983) سے ہوتی ہے)»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل،سنن نسائی1136
محدثین کے ابواب ”پہلے اور بعد؟!“ سوال:
الیاس گھمن صاحب نے اپنی ایک تقریر میں کہا ہے کہ اہلحدیث جو ہیں وہ منسوخ روایات پر عمل کرتے ہیں اور ہم دیوبندی ناسخ روایات پر عمل کرتے ہیں۔
اور وہ ایک قاعدہ و قانون بتاتے ہیں کہ محدثین کرام رحمہم اللہ اجمعین اپنی احادیث کی کتابوں میں پہلے منسوخ روایات کو یا اعمال کو لائے ہیں پھر اُنھوں نے ناسخ روایات کو جمع کیا ہے۔
کیا واقعی یہ بات درست ہے؟
اور وہ مثال دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ محدثین نے اپنی کتابوں میں پہلے رفع یدین کرنے کی روایات ذکر کی ہیں پھر نہ کرنے کی روایات ذکر کی ہیں یعنی رفع الیدین منسوخ ہے اور رفع الیدین نہ کرنا ناسخ ہے، اسی طرح محدثین نے پہلے فاتحہ خلف الامام پڑھنے کی روایات ذکر کی ہیں پھر امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کی روایات ذکر کی ہیں، اہلِ حدیث منسوخ روایات پر عمل کرتے ہیں اور ہم ناسخ پر۔
کیا …… الیاس گھمن صاحب نے جو قاعدہ و قانون بیان کیا ہے وہ واقعی محدثینِ جمہور کا قاعدہ ہے اور دیوبندیوں کا اس قانون پر عمل ہے اور اہل حدیث اس قانون کے مخالف ہیں؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔ الجواب:
گھمن صاحب کی مذکورہ بات کئی وجہ سے غلط ہے، تاہم سب سے پہلے تبویبِ محدثین کے سلسلے میں دس (10) حوالے پیشِ خدمت ہیں:
8) امام نسائی نے سجدوں کی دعا (تسبیحات) کے کئی باب باندھے۔ مثلاً: «عَدَدُ التَّسْبِيحِ فِي السُّجُودِ» [سنن النسائي ص 157، قبل ح 1136]
اور بعد میں باب باندھا: «بَابُ الرُّخْصَةِ فِي تَرْكِ الذِّكْرِ فِي السُّجُودِ»
یعنی سجدوں میں ترکِ ذکر (ترکِ تسبیحات) کی رخصت (اجازت) کا باب۔ [سنن النسائي ص 157، قبل ح 137]
کیا گھمن صاحب کے قاعدے و قانون کی رُو سے سجدوں کی تسبیحات بھی منسوخ ہیں؟!
نیموی حنفی صاحب نے مسجد میں دوسری نماز باجماعت کے مکروہ ہونے کا باب باندھا: «بَابُ مَا اسْتُدِلَّ بِهِ عَلَي كَرَاهَةِ تَكْرَارِ الْجَمَاعَةِ فِيْ مَسْجِدٍ» [آثار السنن قبل ح 526]
اور اس کے فوراً بعد دوسری جماعت کرانے کے جواز کا باب باندھا: «بَابُ مَاجَاءَ فِيْ جَوَازِ تَكْرَارِ الْجَمَاعَةِ فِيْ مَسْجِدٍ» [آثار السنن قبل ح 527]
کیا یہاں بھی گھمن صاحب اور آلِ گھمن جماعتِ ثانیہ کی تکرار کے بارے میں دعوئ کراہت منسوخ اور جواز کو ناسخ سمجھ کر جائز ہونے کا فتوی دیں گے۔؟!
اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (جلد 3 صفحہ 250 تا 259) تحقیقی و علمی مقالات (جلد 4 صفحہ 482 تا 488) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 482
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1136
1136۔ اردو حاشیہ: اس اندازے میں چھوٹی تسبیحات، یعنی «سبحانَ ربِّيَ الأعلى» مراد ہیں۔ تین اور دس کے درمیان تسبیحات ایک درمیانے درجے کا رکوع اور سجدہ ہے۔ اسی پر عمل کرنے سے آدمی افراط و تفریط سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ بعض روایات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تین تسبیحات کا ہے۔ جس سے استدلال کرتے ہوئے علمائے کرام کہتے ہیں کہ یہ تعداد کم از کم ہے۔ زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد نہیں۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1136