عمارہ کہتے ہیں: مجھ سے قیسی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، آپ کے پاس پانی لایا گیا تو آپ نے اسے برتن سے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالا ۱؎ اور انہیں ایک بار دھویا، پھر اپنے چہرے اور دونوں بازؤوں کو ایک ایک بار دھویا، پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے دونوں پیروں کو دھویا۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 113]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 15648) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ‘’عمارہ بن عثمان بن حنیف“ لین الحدیث ہیں)»
وضاحت: ۱؎: حدیث میں «فقال على يديه» وارد ہے عرب قول کو مختلف افعال و اعمال کے لیے استعمال کرتے ہیں مثلاً «قال بيده» سے ”لیا“ «قال برجله» سے ”چلا“ اور «قالت له العينان» سے ”اشارہ کیا“ مراد لیتے ہیں، اسی طرح «قال على يديه من الإنائ» سے ”برتن سے پانی دونوں ہاتھوں پر انڈیلا“ مراد ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 113
113۔ اردو حاشیہ: ➊ فاضل محقق نے مذکورہ روایت کو سنداً صحیح قرار دیا ہے، حالانکہ اس کی سند میں عمارہ بن عثمان بن حنیف راوی مجہول ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ دلائل کی رو سے انھی کی رائے درست معلوم ہوتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [العلل لابن أبي حاتم: 57/1، والموسوعة الحدیثية، مسند الإمام أحمد: 200/38] ➋ روایت میں جو مسئلہ بیان ہوا ہے، اس کی بابت درست رائے یہ معلوم ہوتی ہے کہ دونوں ہاتھوں سے پاؤں دھونا جائز ہے کیونکہ اس کی ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے، البتہ مستحب اور اولیٰ یہی ہے کہ پاؤں کو بائیں ہاتھ سے دھویا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر اچھا عمل دائیں ہاتھ سے یا دائیں طرف سے کیا کرتے تھے اور اس کے علاوہ کوئی بھی کام بائیں طرف سے بائیں ہاتھ سے کیا کرتے تھے، نیز پاؤں کو دھونے سے مقصود عموماً میل کچیل دور کرنا ہے جسے بائیں ہاتھ ہی سے دور کرنا بہتر اور مستحب معلوم ہوتا ہے، البتہ دونوں ہاتھوں سے دھونا بھی جائز ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 113