انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رکوع اور سجدے میں سیدھے رہو ۱؎ اور تم میں سے کوئی بھی اپنے دونوں بازو کتے کی طرح نہ بچھائے“۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 1029]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «حدیث حماد بن سلمة عن قتادة عن أنس، تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 1161)، وحدیث سعید بن أبي عروبة عن قتادة عن أنس قد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة 21 (892)، (تحفة الأشراف: 1197)، ویأتي عند المؤلف برقم: 1111، 1118، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المواقیت 8 (532)، الأذان 141 (822)، صحیح مسلم/الصلاة 45 (493)، سنن ابی داود/فیہ 158 (897)، سنن الترمذی/فیہ 90 (286)، مسند احمد 3/115، 177، 179، 191، 214، 274، 291، سنن الدارمی/الصلاة 75 (1361) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: رکوع میں (اعتدال) سیدھا رہنے کا مطلب یہ ہے کہ پیٹھ کو سیدھا رکھے، اور سر کو اس کے برابر رکھے، نہ اوپر نہ نیچے، اور دونوں ہاتھ سیدھے کر کے گھٹنوں پر رکھے، اور سجدہ میں اعتدال یہ ہے کہ کہنیوں کو زمین سے اور پیٹ کو ران سے جدا رکھے، کتے کی طرح بازو بچھانے کا مطلب دونوں کہنیوں کو دونوں ہتھیلیوں کے ساتھ زمین پر رکھنا ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1029
1029۔ اردو حاشیہ: ➊ افراط و تفریط کسی کام میں بھی اچھی نہیں بلکہ اعتدال اور میانہ روی ہی درست ہے۔ نماز میں بھی اعتدال ضروری ہے۔ رکوع میں اعتدال یہ ہے کہ سرکو پشت سے اونچا کرے، نہ نیچا۔ بازوؤں اور ٹانگوں کو بالکل سیدھا کس کر رکھے۔ ہاتھوں کو گھٹنوں پر پکڑنے کے انداز میں رکھے اور سجدے میں اعتدال یہ ہے کہ کھلا سجدہ کرے۔ بازوؤں کو نہ تو بالکل سکیڑ کر پہلوؤں سے لگائے اور نہ زمین پر رکھے اور نہ رانوں پر۔ پیٹ کو بھی رانوں سے اٹھا کر رکھے۔ بازو مناسب حد تک باہر کو نکلے ہوئے ہوں۔ اگر صف کے اندر ہو تو گنجائش کے مطابق ہی بازو کھولے تاکہ ساتھیوں کو تکلیف نہ ہو۔ ہتھیلیوں کو سیدھا قبلہ رخ زمین پر رکھے۔ ➋ کتے کی طرح بازو پھیلانے کا مطلب یہ ہے کہ ہتھیلیوں کے ساتھ ساتھ کہنیوں کو بھی زمین پر رکھ دے۔ یہ منع ہے۔ نماز کے دوران میں کسی بھی جانور کی مشابہت بہت بری بات ہے، مثلاً: اونٹ کی طرح سجدے کو جانا یا اٹھنا۔ دو سجدوں کے درمیان کتے کی طرح بیٹھنا کہ پاؤں مقعد اور ہاتھ زمین پر رکھے ہوں اور گھٹنے کھڑے ہوں، یہ سب ممنوع ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1029
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1104
´سجدہ میں بازووں کو زمین پر نہ بچھانے کا بیان۔` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں کوئی شخص سجدے میں اپنے دونوں بازو (زمین پر) کتے کے بچھانے کی طرف نہ بچھائے۔“[سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1104]
1104۔ اردو حاشیہ: نماز میں بلکہ عموماً بھی جانوروں کی مشابہت منع ہے، خصوصاً حرام جانوروں کی۔ کتا جب زمین پر بیٹھتا یا لیٹتا ہے تو اپنے اگلے بازو زمین پر بچھا لیتا ہے۔ نمازی کو اپنے بازو زمین سے، رانوں سے اور پہلو سے اٹھا کر دور رکھنے چاہئیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1104
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1111
´سجدہ میں اپنی ہیئت درمیانی رکھنے کا بیان۔` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سجدے میں اپنی ہیئت درمیانی رکھو ۱؎ اور تم میں سے کوئی اپنے دونوں ہاتھوں کو کتے کی طرح نہ پھیلائے“ - یہ الفاظ اسحاق بن راہویہ کے ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1111]
1111۔ اردو حاشیہ: اس وضاحت کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اس روایت کو امام نسائی رحمہ اللہ نے دو سندوں سے بیان کیا ہے۔ دونوں سندیں حضرت قتادہ پر متفق ہوتی ہیں۔ پہلی سند حضرت اسحاق بن ابراہیم سے ہے اور دوسری حضرت اسماعیل بن مسعود سے۔ (مزید دیکھیے، حدیث: 1029]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1111
الشيخ حافظ مبشر احمد رباني حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 897
´نمازی سجدہ میں اپنے دونوں بازوؤں کو (جانور کی طرح) زمین پر نہ بچھائے` «... لَايَنْبَسِطْ اَحَدُكُمْ ذِرَعَيْهِ اِنْبِسَاطَ الْكَلْبِ ...»”تم میں سے کوئی بھی حالتِ سجدہ میں اپنے دونوں بازو کتے کی طرح نہ بچھائے۔“[بخاري، كتاب الأذان: باب لايفترش زراعيه فى السجود 822]
فوائد و مسائل پس معلوم ہوا کہ احناف کے ہاں عورتوں کے سجدہ کرنے کا مروج طریقہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں مگر اس طریقے کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشاد مروی ہیں، چند ایک یہاں نقل کئے جاتے ہیں:
➊ «لَايَنْبَسِطْ اَحَدُكُمْ ذِرَعَيْهِ اِنْبِسَاطَ الْكَلْبِ»[بخاري، كتاب الأذان: باب لايفترش زراعيه فى السجود 822] ”تم میں سے کوئی بھی حالتِ سجدہ میں اپنے دونوں بازو کتے کی طرح نہ بچھائے۔“
➋ «اِعْتَدِلُوْا فِي السُّجُودِ، وَلَا يَفْتَرِشُ أَحَدُكُمْ ذِرَاعَيْهِ افْتِرَاشَ الْكَلْبِ»[أبوداؤد، كتاب الصلاة: باب صفة السجود 897] ”سجدہ اطمینان سے کرو اور تم میں سے کوئی بھی حالت سجدہ میں اپنے بازو کتے کی طرح نہ بچھائے۔“
غرض نماز کے اندر ایسے کاموں سے روکا گیا ہے جو جانوروں کی طرح کے ہوں۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں حیوانات سے مشابہت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ اس طرح بیٹھنا جس طرح اونٹ بیٹھتا ہے یا لومڑی کی طرح اِدھر اُدھر دیکھنا یا جنگلی جانوروں کی طرح افتراش یا کتے کی طرح اقعاء یا کوے کی طرح ٹھونگے مارنا یا سلام کے وقت شریر گھوڑوں کی دم کی طرح ہاتھ اٹھانا یہ سب افعال منع ہیں۔“[زاد المعاد1/ 116]
پس ثابت ہوا کہ سجدہ کا اصل مسنون طریقہ وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا تھا اور کتب احادیث میں یوں مروی ہے: «إِذَا سَجَدَ وَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ وَلَا قَابِضِهِمَا»[بخاري، كتاب الأذان: باب سنة الجلوس فى التشهد 828] “ جب آپ سجدہ کرتے تو اہنے ہاتھوں کو زمین پر نہ بچھاتے اور نہ اپنے پہلوؤں سے ہی ملاتے تھے۔“
قرآن مجید میں جس مقام پر نماز کا حکم وارد ہوا ہے اس میں سے کسی ایک مقام پر بھی اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کے طریقہ نماز میں فرق بیان نہیں کیا۔ دوسری بات یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کسی صحیح حدیث سے ہیت نماز کا فرق مروی نہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد رسالت سے جملہ امہات المؤمنین، صحابیات اور احادیث نبویہ پر عمل کرنے والی خواتین کا طریقہ نماز وہی رہا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوتا تھا۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بسند صحیح ام درداء رضی اللہ عنہا کے متعلق نقل کیا ہے: «انهاكانت تجلس فى صلاتها جلسة الرجل و كانت فقيهة»[التاريخ الصغير للبخاري 90] ”وہ نماز میں مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں اور وہ فقیہ تھیں۔“
چوتھی بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم عام ہے: “ اس طرح نماز پڑھو، جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو۔“[بخاري: 6008] اس حکم کے عموم میں عورتیں بھی شامل ہیں۔
پانچویں یہ کہ سلف صالحین یعنی خلفائے راشدین، صحاب کرام، تابعین، تبع تابعین، محدثین اور صلحائے امت میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو دلیل کے ساتھ یہ دعوٰی کرتا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں اور عورتوں کی نماز میں فرق کیا ہے۔ بلکہ امام ابوحنیفہ کے استاد امام ابراہیم نخعی سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے: «تَفْعَلُ الْمَرْأَةُ فِي الصَّلَاةِ كَمَا يَفْعَلُ الرَّجُلُ»[ابن أبى شيبة 2/75/1] ”نماز میں عورت بھی بالکل ویسے ہی کرے جیسے مرد کرتا ہے۔“
احکام و مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 196
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1102
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سجدہ اعتدال لے ساتھ کرو اور کوئی اپنی باہوں کو سجدہ میں اس طرح نہ بچھائے جس طرح کتا باہیں زمین پر بچھا دیتا ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:1102]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: سجدہ میں طمانیت اور سکون اختیار کرنا چاہیے یعنی سجدے میں ہر عضو کو اطمینان کا ساتھ زمین پر رکھنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ سر زمین پر رکھا اور فوراً اٹھا لیا اسی طرح سجدے میں کلائیوں کو زمین سے اوپر اٹھا رہنا چاہیے اور آپﷺ نے کلائیوں کے زمین پر رکھنے کی تشبیہ کتے کے فعل کے ساتھ دی ہے تاکہ اس فعل کی قباحت اور برائی اچھی طرح نمازی کے ذہن نشین ہو جائے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1102
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 822
822. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”سجدے میں اعتدال کرو اور تم میں سے کوئی اپنی کلائیاں اس طرح نہ پھیلائے جس طرح کتا بچھاتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:822]
حدیث حاشیہ: کیونکہ اس طرح بازو بچھا دینا سستی اور کاہلی کی نشانی ہے۔ کتے کے ساتھ تشبیہ اوربھی مذمت ہے۔ اس کا پورا لحاظ رکھنا چاہیے۔ امام قسطلانی ؒ نے کہا کہ اگرکوئی ایسا کرے تو نماز مکروہ تنزیہی ہوگی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 822
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:532
532. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”سجدہ اچھی طرح اطمینان سے کرو اور تم میں سے کوئی بھی اپنے بازوؤں کو کتے کی طرح نہ بچھائے۔ اگر اسے تھوکنے کی ضرورت ہو تو اپنے آگے اور دائیں جانب نہ تھوکے کیونکہ وہ اپنے پروردگار سے مناجات کر رہا ہوتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:532]
حدیث حاشیہ: سجدے کی حالت میں انسان اپنے رب کے انتہائی قریب ہوتا ہے، اس لیے نہایت عجز و انکسار کے ساتھ اپنی ہتھیلیوں کو زمین پر ٹکا دیا جائے، نیز اپنی کہنیوں کو زمین سے اوپر اٹھائے رکھے اور انھیں اپنے پیٹ سے بھی دور رکھے۔ اس طرح نہ صرف عجزوانکسار کا اظہار ہوگا بلکہ انسان سستی اور کاہلی سے بھی محفوظ رہے گا۔ (عمدة القاري: 26/4) نمازی کو بحالت نماز سب سے اچھی حالت وہیئت میں ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ'' اِقعاء الكلب'' ”کتے کی طرح بیٹھنا“، ''افتراش السبع'' ”درندوں کی طرح پاؤں پسار کر بیٹھنا“، ''بروك البعير'' اونٹ کی طرح بیٹھنا ''نقرة الغراب'' ”کوے کی طرح ٹھونگیں مارنا“ وغیرہ تمام امور سے منع کیا گیا ہے۔ الغرض نماز میں ہر لحاظ سے سکون و اطمینان، شائستگی و سنجیدگی، خشوع خضوع، بہترین لباس اور حسن ہیئت وغیرہ مطلوب ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 532
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:822
822. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”سجدے میں اعتدال کرو اور تم میں سے کوئی اپنی کلائیاں اس طرح نہ پھیلائے جس طرح کتا بچھاتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:822]
حدیث حاشیہ: (1) حدیث میں ہے کہ سجدہ کرتے وقت نمازی کے ہاتھ بھی سجدہ کرتے ہیں اور ان کے سجدے کی یہی صورت ہے کہ وہ آگے سے جھکے ہوئے اور پیچھے سے اٹھے ہوئے ہوں لیکن افتراش کی صورت میں سجدے کی حالت نہیں ہو گی، نیز رسول اللہ ﷺ نے نماز میں بری ہئیت اور حیوانات سے تشبیہ کو ناپسند کیا ہے اور کلائیاں زمین پر بچھانے سے کتے کی مشابہت ہوتی ہے، اس لیے آپ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں حکم امتناعی کے ساتھ اس کی علامت بھی بیان کر دی ہے کہ گھٹیا اور ذلیل چیزوں سے مشابہت ترک کرنا ہو گی کیونکہ ایسا کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نمازی اپنی نماز میں خالص توجہ نہیں دیتا اور اس کی پروا نہیں کرتا۔ (فتح الباري: 390/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 822
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، صحیح بخاری 822
سجدے میں کتے کی طرح زمین پر ہاتھ بچھانا حدیث میں آیا ہے کہ سجدے میں کتے کی طرح زمین پر ہاتھ نہیں بچھانے چاہئیں۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 822]
اور کسی صحیح حدیث میں یہ بالکل نہیں آیا کہ عورتیں سجدوں میں زمین پر ہاتھ بچھائیں۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ ”جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملا لیا کرو کیونکہ عورت کا حکم سجدے میں مرد جیسا نہیں ہے۔“[مراسيل ابي داود: 8]
یہ روایت مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ مرسل کے بارے میں امام مسلم رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک مرسل روایات حجت نہیں ہیں۔ [مقدمه صحيح مسلم ص20 ملخصا]
طحاوی حنفی کے ایک کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ منقطع (مرسل) کو حجت نہیں سمجھتے تھے۔ دیکھئے: [شرح معاني الآثار ج2 ص164، باب الرجل يسلم فى دارالحرب وعنده اكثر من اربع نسوة، طبع ايچ ايم سعيدد كمپني كراچي]
یاد رہے کہ امام ابوحنیفہ سے باسند صحیح یہ قول ثابت نہیں کہ مرسل حجت ہے۔
دیو بندی حضرات بذاتِ خود بہت سی مرسل روایات کے منکر ہیں۔ مثلاًً:
طاؤس تابعی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں سینے پر ہاتھ باندھتے تھے۔ [المراسيل لابي داود: 34]
اس کی سند طاؤس تک حسن لذاتہ ہے۔ سلیمان بن موسیٰ کو جمہور نے ثقہ کہا:۔
دیکھئے سرفراز خان صفدر کی خزائن السنن [ج2 ص89] اور باقی راویوں پر بھی جرح مردود ہے۔
ظہور احمد دیو بندی نے ضعیف (مرسل) روایت کی تائید میں دو مردود روایتیں پیش کی ہیں: اول: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت بحوالہ السنن الکبریٰ للبیہقی [223/2]
اس کا راوی ابومطیع الحکم بن عبداللہ البلخی سخت مجروح تھا اور اسی صفحے پر امام بیہقی نے اس پر جرح کر رکھی ہے۔ نیز دیکھئے: [لسان الميزان ج2 ص334۔ 336]
اس کے دوسرے راوی محمد بن القاسم البلخی کا (روایت میں) ذکر حلال نہیں۔ دیکھئے: [لسان الميزان 347/5]
تیسرا راوی عبید بن محمد السرخسی نامعلوم ہے۔ خلاصہ یہ کہ یہ سند موضوع ہے۔ دوم: سیدنا ابوسعید الخذری رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت بحوالہ السنن الکبریٰ [222/2]
اس کا راوی عطاء بن عجلان متروک ہے، بلکہ ابن معین اور فلاس وغیرہما نے اسے جھوٹا قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [تقريب التهذيب 4594]
لہٰذا یہ سند بھی موضوع ہے اور خود امام بیہقی نے بھی اس پر جرح کر رکھی ہے۔
۔۔۔ اصل مضمون دیکھیں۔۔۔
فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام) ج2 ص77