انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نماز شروع کرتا ہوں اور لمبی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، اتنے میں بچے کے رونے کی آواز سن لیتا ہوں تو نماز اس خیال سے مختصر کر دیتا ہوں کہ بچے کی ماں کو اس کے رونے کی وجہ سے تکلیف ہو گی“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 989]
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عہد نبوی میں عورتیں مسجد میں آ کر نماز باجماعت ادا کرتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کی رعایت کرتے ہوئے نماز کو مختصر پڑھاتے، تاکہ بچوں کے رونے سے ماؤں کی نماز میں خلل نہ ہو، لہذا آج بھی جن مساجد میں عورتوں کے نماز پڑھنے کا انتظام ہے، ان میں عورتیں اپنے اسلامی شعار کا لحاظ کرتے ہوئے جائیں اور نماز باجماعت ادا کریں، یہ حدیث ہر زمانے اور ہر جگہ کے لئے عام ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 376
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے نماز میں بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز ہلکی کر دینے کا بیان۔` انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اللہ کی! جب نماز میں ہوتا ہوں اور اس وقت بچے کا رونا سنتا ہوں تو اس ڈر سے نماز کو ہلکی کر دیتا ہوں کہ اس کی ماں کہیں فتنے میں نہ مبتلا ہو جائے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 376]
اردو حاشہ: 1؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام کو ایسی صورت میں یا اسی طرح کی صورتوں میں بروقت نماز ہلکی کردینی چاہئے، تاکہ بچوں کی مائیں ان کے رونے اور چلانے سے گھبرا نہ جائیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 376
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1056
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں لمبی نماز پڑھنے کے ارادے سے نماز شروع کرتا ہوں، پھر بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اس کے رونے کی وجہ سے ماں کے شدید غم میں مبتلا ہونے کی وجہ (کے ڈر) سے ہلکی نماز پڑھا دیتا ہوں۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:1056]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: وَجْدٌ: غم وحزن۔ فوائد ومسائل: اثنائے نماز میں کسی تخفیف کے طالب کام کے پیدا ہوجانے سے امام نماز میں تخفیف کر سکتا ہے، جب کہ وہ کام ایسا ہو جو مقتدیوں کے لیے یا ان میں سے بعض کے لیے نماز سے مشغولیت اور غفلت کا سبب بنتا ہو، آپﷺ نے بچے کے رونے کو ماں کے نماز سے مشغول ہونے کے سبب (کہ وہ اس سے محبت کی بنا پر اس کے رونے سے غم وحزن میں مبتلا ہو کرنماز پر توجہ نہیں دے سکی) نماز میں تخفیف کی ہے، اس پر قیاس کرتے ہوئے علماء نے لکھا ہے نامعلوم نمازیوں کو رکعت میں شریک کرنے کے لیے قیام کو کچھ طویل بھی کیا جا سکتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1056
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 708
708. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے کسی امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جو نبی ﷺ سے زیادہ مختصر اور اسے مکمل طر پر ادا کرنے والا ہو۔ بےشک آپ بچے کا گریہ سن کر نماز کو ہلکا کر دیتے تھے مبادا اس کی ماں پریشان ہو جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:708]
حدیث حاشیہ: یعنی آپ ﷺ کی نماز باعتبار قرات کے تو ہلکی ہوتی، چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھتے اور ارکان یعنی رکوع سجدہ وغیرہ پورے طور سے ادا فرماتے جو لوگ سنت کی پیروی کرنا چاہیں۔ ان کو امامت کی حالت میں ایسی ہی نماز پڑھانی چاہئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 708
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 710
710. حضرت انس ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”میں نماز شروع کرتے وقت اسے طول دینے کا ارادہ کرتا ہوں لیکن بچے کے رونے کی آواز سن کر اسے مختصر کر دیتا ہوں کیونکہ اس کے رونے سے میں محسوس کرتا ہوں کہ ماں کی مامتا تڑپ جائے گی۔“(راوی حدیث) موسیٰ نے کہا کہ ہم سے ابان نے حدیث بیان کی، اسے قتادہ نے، پھر اس نے حضرت انس سے اسے بیان کیا۔ حضرت انس ؓ نبی ﷺ سے اسی طرح بیان کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:710]
حدیث حاشیہ: ان جملہ احادیث سے آپ ﷺ کی شفقت ظاہر ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ عہد رسالت میں عورتیں بھی شریک جماعت ہوا کرتی تھیں، ابن ابی شیبہ میں ہے کہ ایک دفعہ آپ ﷺ نے پہلی رکعت میں ساٹھ آیات کو پڑھا۔ پھر بچے کے رونے کی آواز سن کر آپ نے اتنا اثر لیا کہ دوسری رکعت میں صرف تین آیات پڑھ کر نماز کو پورا کردیا۔ (صلی اللہ علیه وسلم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 710
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:708
708. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے کسی امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جو نبی ﷺ سے زیادہ مختصر اور اسے مکمل طر پر ادا کرنے والا ہو۔ بےشک آپ بچے کا گریہ سن کر نماز کو ہلکا کر دیتے تھے مبادا اس کی ماں پریشان ہو جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:708]
حدیث حاشیہ: امام بخاری ؒ کے سابقہ عنوانات میں مقتدی حضرات کی رعایت کرتے ہوئے نماز میں تخفیف کردینے کا ذکر تھا۔ اس باب میں ایسی روایات پیش کی ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ مقتدی حضرات کے علاوہ دوسرے لوگوں کی رعایت کرتے ہوئے بھی نماز کا مختصر کیا جاسکتا ہے لیکن غیر مقتدی کا کسی نہ کسی طرح مقتدی سے تعلق ضرور ہوتا ہے جیسا کہ اس روایت میں ہے کیونکہ نماز میں تخفیف کا سبب اگرچہ بچے کا رونا ہے لیکن درحقیقت اس کا تعلق ماں کی مامتا سے ہے، گویا تخفیف ماں کی خاطر ہی کی جارہی ہے۔ (فتح الباري: 262/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 708
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:709
709. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: ”میں نماز کے آغاز کے وقت اسے طول دینے کا ارادہ کرتا ہوں لیکن بچے کا رونا سن کر اسے مختصر کر دیتا ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ بچے کے رونے سے اس کی ماں کو پریشانی اور تشویش لاحق ہو گی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:709]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل کا پتا چلتا ہے: ٭عورتیں مردوں کے ہمراہ نماز باجماعت ادا کرسکتی ہیں۔ ٭ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ بہت شفقت فرماتے تھے اور ان کی احوال گیری کرتے رہتے تھے۔ ٭اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ بچوں کو مسجد میں لایا جا سکتا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: یہ بات محل نظر ہے، کیونکہ بچے کہ رونے سے ماں کا پریشان ہونا بیان ہوا ہے، اس کے لیے ضروری نہیں کہ بچہ ماں کے ساتھ ہی ہو بلکہ ممکن ہے کہ مسجد کے ساتھ اس کا گھر ہو اور مسجد گھر سے بچے کے رونے کی آواز سنائی دے رہی ہو۔ (فتح الباري: 262/2) لیکن حافظ ابن حجر ؒ کی یہ توجیہ محل نظر ہے کیونکہ مسجد کے آس پاس گھر تو ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے تھے جن کے ہاں اولاد نہیں تھی۔ والله أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 709
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:710
710. حضرت انس ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”میں نماز شروع کرتے وقت اسے طول دینے کا ارادہ کرتا ہوں لیکن بچے کے رونے کی آواز سن کر اسے مختصر کر دیتا ہوں کیونکہ اس کے رونے سے میں محسوس کرتا ہوں کہ ماں کی مامتا تڑپ جائے گی۔“(راوی حدیث) موسیٰ نے کہا کہ ہم سے ابان نے حدیث بیان کی، اسے قتادہ نے، پھر اس نے حضرت انس سے اسے بیان کیا۔ حضرت انس ؓ نبی ﷺ سے اسی طرح بیان کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:710]
حدیث حاشیہ: امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں جو وضاحت فرمائی ہے اس سے مقصود یہ ہے کہ حضرت قتادہ کا حضرت انس سے سماع ثابت ہے۔ اس سے تدلیس کا کا شعبہ ختم ہوگیا۔ موسیٰ سے مراد ابو سلمہ موسیٰ بن اسماعیل تبوذکی ہیں۔ ان کے استاد حضرت ابان بن یزید العطار ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 710