ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کی امامت وہ شخص کرے جو لوگوں میں قرآن زیادہ جانتا ہو، اگر قراءت میں سب یکساں ہوں تو امامت وہ کرے جس نے ہجرت پہلے کی ہو ۱؎، اگر ہجرت میں سب برابر ہوں تو امامت وہ کرے جو عمر کے لحاظ سے بڑا ہو، اور کوئی شخص کسی شخص کے گھر والوں میں اور اس کے دائرہ اختیار و منصب کی جگہ میں امامت نہ کرے ۲؎، اور کوئی کسی کے گھر میں اس کی مخصوص جگہ پہ بغیر اس کی اجازت کے نہ بیٹھے“۳؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 980]
وضاحت: ۱؎: ابومسعود رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت میں یوں ہے کہ اگر قراءت میں برابر ہوں تو جس کو سنت کا علم زیادہ ہو وہ امامت کرے، اگر اس میں بھی برابر ہوں تو جس کی ہجرت پہلے ہوئی ہو وہ امامت کرے، یعنی قرآن زیادہ جانتا ہو یا قرآن کو اچھی طرح پڑھتا ہو، یہ حدیث صحیح ہے، محدثین نے اسی کے موافق یہ حکم دیا ہے کہ جو شخص قرآن زیادہ جانتا ہو وہی امامت کا حق دار ہے اگرچہ نابالغ یا کم عمر ہو، اور اسی بناء پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عمر بن ابی سلمہ کو امام بنایا تھا، حالانکہ ان کی عمر چھ یا سات برس کی تھی۔ ۲؎: یعنی مہمان میزبان کی امامت نہ کرے، الا یہ کہ وہ اس کی اجازت دے، اسی طرح کوئی کسی جگہ کا حکمران ہو تو اس کی موجودگی میں کوئی اور امامت نہ کرے۔ ۳؎: مثلاً کسی کی کوئی مخصوص کرسی یا مسند وغیر ہو تو اس پر نہ بیٹھے۔
يؤم القوم أقرؤهم لكتاب الله فإن كانوا في القراءة سواء فأقدمهم في الهجرة فإن كانوا في الهجرة سواء فأعلمهم بالسنة فإن كانوا في السنة سواء فأقدمهم سنا ولا تؤم الرجل في سلطانه ولا تقعد على تكرمته إلا أن يأذن لك
يؤم القوم أقرؤهم لكتاب الله وأقدمهم قراءة فإن كانت قراءتهم سواء فليؤمهم أقدمهم هجرة فإن كانوا في الهجرة سواء فليؤمهم أكبرهم سنا ولا تؤمن الرجل في أهله ولا في سلطانه ولا تجلس على تكرمته في بيته إلا أن يأذن لك أو بإذنه
يؤم القوم أقرؤهم لكتاب الله فإن كانوا في القراءة سواء فأعلمهم بالسنة فإن كانوا في السنة سواء فأقدمهم هجرة فإن كانوا في الهجرة سواء فأقدمهم سلما ولا يؤمن الرجل الرجل في سلطانه ولا يقعد في بيته على تكرمته إلا بإذنه
يؤم القوم أقرؤهم لكتاب الله فإن كانوا في القراءة سواء فأعلمهم بالسنة فإن كانوا في السنة سواء فأقدمهم هجرة فإن كانوا في الهجرة سواء فأكبرهم سنا ولا يؤم الرجل في سلطانه ولا يجلس على تكرمته في بيته إلا بإذنه
يؤم القوم أقرؤهم لكتاب الله وأقدمهم قراءة فإن كانوا في القراءة سواء فليؤمهم أقدمهم هجرة فإن كانوا في الهجرة سواء فليؤمهم أكبرهم سنا ولا يؤم الرجل في بيته ولا في سلطانه ولا يجلس على تكرمته إلا بإذنه
يؤم القوم أقرؤهم لكتاب الله فإن كانت قراءتهم سواء فليؤمهم أقدمهم هجرة فإن كانت الهجرة سواء فليؤمهم أكبرهم سنا ولا يؤم الرجل في أهله ولا في سلطانه ولا يجلس على تكرمته في بيته إلا بإذن أو بإذنه
يؤم القوم أقرؤهم لكتاب الله فإن كانوا في القراءة سواء، فأعلمهم بالسنة فإن كانوا في السنة سواء فأقدمهم هجرة، فإن كانوا في الهجرة سواء فأكبرهم سنا، ولا يؤم رجل في سلطانه، ولا يجلس على تكرمته في بيته إلا بإذنه
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث980
اردو حاشہ: فوائد مسائل:
(1) امامت کا زیادہ مستحق وہ شخص ہے جو دوسروں سے افضل ہو اور افضلیت کا معیار نہ مال ودوولت ہے نہ خاندان اور قبیلہ بلکہ دین کا علم افضلیت کا میعار ہے۔
(2) صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین قرآن مجید کے الفاظ کے ساتھ ساتھ اس کے مفہوم اور مسائل سے بھی آگاہی حاصل کرتے تھے اس لئے جسے قرآن زیادہ یاد ہوتا تھا۔ وہ علم میں بھی برتر ہوتا تھا۔
(3) دینی علوم میں سب سے اہم علم قرآن مجید کا علم ہے۔ اس کے بعد سنت نبوی ﷺ اور حدیث شریف کا مرتبہ ہے۔ جو قرآن مجید کی تشریح ہے۔
(4) قرآن کا عالم اگر عمر میں چھوٹا ہو تب بھی بڑی عمر والوں کی نسبت امامت کا زیادہ حق رکھتا ہے۔ حضرت عمرو بن سلمہ جرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں اپنے قبیلے کی امامت کراتے تھے۔ کیونکہ انھیں قرآن زیادہ یاد تھا۔ اسوقت ان کی عمر آٹھ سال تھی۔ (سنن نسائي الإمامة، باب إمامة الغلام قبل ان یحتلم حدیث: 790 وسنن ابی داؤد، الصللاۃ، باب من أحق بالإمامة؟ حدیث: 585)
(5) جو شخص امامت کا زیادہ حق رکھتا ہے۔ اس کی اجازت یا فرمائش پر دوسرا آدمی امام بن سکتاہے۔
(6) مخصوص نشست سے مراد وہ جگہ ہے جہاں کا کوئی شخص اپنے منصب ومرتبے کے مطابق بیٹھنے کا حق رکھتا ہے۔ یا گھر میں جہاں وہ عام طور پر بیٹھا کرتا ہے۔ مثلاً کسی سرکاری ملازم اور عہدیدار کے دفتر میں اس کی خاص کرسی یاگھر میں کسی بزرگ کے بیٹھنے کی خاص جگہ وہاں دوسرے آدمی کو بلا اجازت نہیں بیٹھنا چاہیے۔ کیونکہ یہ بڑوں کے احترام کے منافی ہے۔ البتہ اگر صاحب حق اجازت دے تو وہاں بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 980
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 582
´امامت کا زیادہ حقدار کون ہے؟` ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کی امامت وہ شخص کرے جو کتاب اللہ کو سب سے زیادہ پڑھنے والا ہو، اگر لوگ قرأت میں برابر ہوں تو ان میں جس نے پہلے ہجرت کی ہو وہ امامت کرے، اگر ہجرت میں بھی برابر ہوں تو ان میں بڑی عمر والا امامت کرے، آدمی کی امامت اس کے گھر میں نہ کی جائے اور نہ اس کی حکومت میں، اور نہ ہی اس کی «تکرمہ»(مسند وغیرہ جو اس کی عزت کی جگہ ہو) پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھا جائے۔“ شعبہ کا بیان ہے: میں نے اسماعیل بن رجاء سے کہا: آدمی کا «تکرمہ» کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا: اس کا «فراش» یعنی مسند (اس کا بستر) وغیرہ۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 582]
582۔ اردو حاشیہ: ➊ ہمارے اس دور میں حافظ، قاری اور عالم ہونے کے خاص معیار متعارف ہو گئے ہیں۔ حالانکہ سلف کے ہاں یہ فرق معروف نہ تھے۔ حافظ حضرات ایک حد تک «مُجَوِّد» اور صاحب علم بھی ہوتے تھے اور ان کا لقب ”قاری“ ہوتا تھا چونکہ نماز کا تعلق قرآن مجید کی قرات کے ساتھ ساتھ دیگر اہم مسائل سے بھی ہے۔ اس لئے ایسا شخص افضل ہے، جو حافظ اور عالم ہو۔ صرف حافظ ہونا فضیلت ہے افضلیت نہیں۔ ➋ اس حدیث کی دوسری روایت میں قاری کے بعد ”سنت کے عالم“ کا درجہ بیان ہوا ہے۔
➌ ہجرت کی فضیلت صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ہی کے ساتھ مخصوص تھی، کسی دوسرے شخص کے حلقہ عمل میں بلا اجازت امامت کرانا (اور ضمناً فتوے دینے شروع کر دینا) شرعاً ممنوع ہے، ایسے ہی اس کی خاص مسند (نشست یا بستر) پر بلا اجازت بیٹھنا بھی منع ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 582
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 781
´امامت کا زیادہ مستحق کون ہے؟` ابومسعود (عقبہ بن عمرو) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کی امامت وہ کرے جسے اللہ کی کتاب (قرآن مجید) سب سے زیادہ یاد ہو، اور سب سے اچھا پڑھتا ہو ۱؎، اور اگر قرآن پڑھنے میں سب برابر ہوں تو جس نے ان میں سے سب پہلے ہجرت کی ہے وہ امامت کرے، اور اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو جو سنت کا زیادہ جاننے والا ہو وہ امامت کرے ۲؎، اور اگر سنت (کے جاننے) میں بھی برابر ہوں تو جو ان میں عمر میں سب سے بڑا ہو وہ امامت کرے، اور تم ایسی جگہ آدمی کی امامت نہ کرو جہاں اس کی سیادت و حکمرانی ہو، اور نہ تم اس کی مخصوص جگہ ۳؎ پر بیٹھو، إلا یہ کہ وہ تمہیں اجازت دیدے“۴؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 781]
781 ۔ اردو حاشیہ: ➊ یہ روایت السنن الکبریٰ میں بھی موجود ہے، دونوں جگہ (صغریٰ اور کبریٰ میں) اعمش سے بیان کرنے والے فضیل بن عیاض ہیں جو أفرا کے بعد أقدم فن الھجرۃ اور اس کے بعد أعلم بالسنۃ کا درج بیان کرتے ہیں، جبکہ یہی روایت صحیح مسلم میں بھی ہے۔ وہ اعمش سے روایت کرنے والے ابوخالد احمر ہیں جو أفرا کے بعد أعلم بالسنة کا درج بیان کرتے ہیں اور اس کے بعد أقدم فن الھجرۃ کا۔ اس روایت کے دیگر طرق پر غور کرنے سے پتہ چلتا ے کہ اعمش کے باقی شاگرد، ابومعاویہ، جریر، ابن فضیل، سفیان اور عبداللہ بن وغیرہ ابوخالد احمر کی مطابقت کرتے ہیں جو أعلم بالسنة کا دوسرا درجہ بیان کرتا ے اور فضیل بن عیاض کی مخالفت کرتے ہیں۔ تو ثابت ہوا کہ فضیل بن عیاض أعلم بالسنة سے أقدم في الھجرة کو مقدم بیان کرنے میں متفرد ہے جبکہ فی الحقیقت أعلم بالسنة، أقدم فن الھجرة سے مقدم ہے جیسا کہ اعمش کے دیگر حفاظ شاگرد بیان کرتے ہیں، لہٰذا پہلا درجہ أقرا لکتاب اللہ کا ہے، دوسرا أعلم بالسنة کا، تیسرا أقدم في الھجرة کا اور چوتھا عمر میں بڑے کا۔ ➋ امام کی نہ کسی فضیلت میں مقتدیوں سے زائد ہونا چاہیے، علم ہو یا مرتبہ یا عمر۔ ہجرت بھی مرتبہ اور فضیلت میں اضافے کا موجب ہے۔ ➌ اس درجہ بندی سے معلوم ہوا کہ جو حفظ و قرأت میں مقدم ہو اور اسے قرآن مجید زیادہ یاد ہو، امامت کے لیے اسے ہی آگے کیا جائے گا۔ جو صرف عالم دین ہو، سنت کی معرفت زیادہ رکھتا ہو، اس کا درجہ قاریٔ قرآن کے بعد ے، بشرطیکہ وہ نماز کے واجبات و ارکان سے واقف ہو۔ اگر یہ اہلیت نہ رکھتا ہو تو اسے اس کی تربیت دی جائے کیونکہ امامت کا زیادہ حق دار وہی ہے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن سلمہ کے قبیلے کے افراد کو بھی اس بات کی تلقین کی تھی، حالانکہ افرادِ قبیل ان سے أعلم (علم میں فائق) تھے اور عمر میں بھی بڑے، چونکہ عمرو بن سلمہ چھ سات سال کے تھے، اس لیے بڑوں نے پلے ان کی تربیت کی اور بعد ازاں امامت کے لیے آگے کیا۔ یاد رہے! دیگر کچھ مقاصد کے پیش نظر صرف عالم دین کو بھی امامت کے لیے آگے کیا جا سکتا ہے، نیز یہ مسئلہ وہاں قابل عمل ہے جہاں کسی کا باقاعدہ تقرر نہ ہو، یعنی اگر کسی کی باقاعدہ امام کی حیثیت سے نماز پڑھانے کی ذمہ داری ہو تو اسی کو مقدم کیا جائے گا۔ ہاں، یہ ضروری ہے کہ اس عظیم منصب کے لیے کسی صاحب علم و دین اور حافظ قرآن ہی کا انتخاب کیا جائے۔ ➍ کسی کی سلطنت و امامت والی جگہ میں بلا اجازت امامت منع ہے۔ جب وہ خود اجازت دے یا درخواست کرے تو امامت بھی کرا سکتا ہے اور اس کی مسند پر بیٹھ بھی سکتا ہے، جیسے استاد و شاگرد۔ بعض حضرات نے اجازت کی قید صرف مسند پر بیٹھنے کے لیے قرار دی ہے گویا امامت اجازت کے ساتھ بھی نہیں کرا سکتا مگر یہ بات صحیح نہیں اور نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے اس کی تائید ہوتی ہے بلکہ بعض مواقع پر ناقابل عمل بھی ہے، مثلاً: تراویح وغیرہ میں حافظ، امامت وقت کی امامت کرا سکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 781
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 235
´امامت کا زیادہ حقدار کون ہے؟` ابومسعود انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کی امامت وہ کرے جو اللہ کی کتاب (قرآن) کا سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہو، اگر لوگ قرآن کے علم میں برابر ہوں تو جو سب سے زیادہ سنت کا جاننے والا ہو وہ امامت کرے، اور اگر وہ سنت کے علم میں بھی برابر ہوں تو جس نے سب سے پہلے ہجرت کی ہو وہ امامت کرے، اگر وہ ہجرت میں بھی برابر ہوں تو جو عمر میں سب سے بڑا ہو وہ امامت کرے، آدمی کے دائرہ اقتدار میں اس کی امامت نہ کی جائے اور نہ کسی آدمی کے گھر میں اس کی مخصوص جگہ پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھا جائے۔“[سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 235]
اردو حاشہ: 1؎: ان لوگوں کی دلیل مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی روایت ((مَنْ زَارَ قَوْمًا فَلاَ يَؤُمَّهُمْ، وَلْيَؤُمَّهُمْ رَجُلٌ مِنْهُمْ)) ہے ((إِلَّا بِإِذْنِهِ)) کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق صرف ((لَا يُجْلَسُ عَلَى تَكْرِمَتِهِ)) سے ہے ((لَا يُؤَمُّ الرَّجُلُ فِي سُلْطَانِهِ)) سے نہیں ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 235
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:462
462- سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”لوگوں کی امامت وہ شخص کرے جو اللہ کی کتاب زیادہ اچھے طریقے سے پڑھ سکتا ہو اگر وہ لوگ قرأت میں برابر ہوں، تو وہ شخص کرے جو سنت کا زیادہ علم رکھتا ہو، اگر وہ لوگ سنت کے علم میں بھی برابر ہوں تو وہ شخص کرے جس نے ہجرت پہلے کی ہو، اگر وہ ہجرت میں بھی برابر ہوں، تو وہ شخص کرے جس کی عمر زیادہ ہو اور کوئی بھی شخص کسی دوسرے کی حکومت میں میں امامت نہ کرے اور نہ ہی اس کے گھر میں اس کے بیٹھنے کی مخصوص جگہ پر بیٹھے، البتہ اس کی اجازت کے ساتھ ایسا کیا جاسکتا ہے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:462]
فائدہ: اس حدیث میں امام کس کو بنایا جائے، اس کی تفصیل ہے، امام کی اہم صفت یہ ہونی چاہیے کہ وہ قرآن و حدیث میں ماہر ہو، قرآن کے ساتھ ساتھ اس کو متعلقہ علوم و فنون میں بھی ماہر ہونا چاہیے اور باعمل بھی ہونا چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 462
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1532
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”لوگوں کی امامت وہ شخص کرے جو ان میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی کتاب پڑھنے والا ہو اور اگر اس میں یکساں ہوں تو ان میں جو سب سے زیادہ سنت کا علم رکھتا ہو، پس اگر سنت میں بھی سب برابر ہوں تو وہ جس نے سب سے پہلے ہجرت کی ہو اور اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو وہ امامت کروائے سب سے پہلے مسلمان ہوا ہو اور کوئی آدمی دوسرے آدمی کے اقتدار کی جگہ میں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:1532]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) سِلْم: اسلام لانا، مسلمان ہونا۔ سلطان سیادت وحکومت۔ (2) تَكْرِمَتِه: اس کی عزت وتکریم کی جگہ، کسی کی مسند۔ یعنی مستقل امام کی اجازت کے بغیر اس کی جگہ پر امامت نہیں کروائی جا سکتی اور کسی کے گھر اس کی مخصوص جگہ پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھا نہیں جا سکتا۔ فوائد ومسائل: عہد نبوی میں فضیلت کا مدار دین و تقوی تھا اس لیے سب سے پہلا معیار فضیلت قرآن مجید کے ساتھ شغف و تعلق تھا۔ نماز کی امامت کے لیے زیادہ اہل اور موزوں وہ شخص ہے۔ جو کتاب اللہ کے ساتھ شغف وربط میں دوسروں سے فائق ہو فضیلت کا دوسرا معیار سنت کا علم ہے اور ظاہر ہے اگر أقرأہ سے مراد کتاب اللہ کا علم رکھنے والا ہو تو پھر جو سنت کا زیادہ علم رکھتا ہو گا۔ وہی قرآن کا زیادہ علم رکھتا ہو گا کیونکہ سنت ہی قرآن کی شراح اور مفسر ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو قرآن پڑھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اس کے حقائق و معارف اور اس پر عمل کا طریقہ بھی بتاتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تیسرا معیار فضیلت ہجرت میں مقدم ہونا تھا اب یہ چیز باقی نہیں رہی اس لیے علماء نے اس کی جگہ صلاح و تقوی میں فوقیت و برتری کو تیسرا معیار قراردیا ہے ترجیح کا چوتھا معیار آپ نے اس میں پہلے اسلام لانے کو قراردیا ہے اور اگلی حدیث میں عمر میں بزرگی کو معیار قراردیا ہے یعنی اس کو مسلمان ہوئی زیادہ عرصہ ہو چکا ہو خلاصہ کلام یہ ہے کہ جماعت میں جو شخص سب سے بہتر اور افضل ہو اس کو امام بنایا جائے آج کل اس اہم ہدایت سے تغافل برتا جا رہا ہے اس لیے امت میں بہت سی خرابیوں نے راہ بنا لی ہے اور امت کا شیراز بکھر گیا۔