عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بات چیت کرنے والے، اور سوئے ہوئے شخص کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 959]
وضاحت: ۱؎: یہ ممانعت تنزیہی ہے یعنی بہتر ہے کہ اس طرح نماز نہ ادا کی جائے، یا اس حدیث کا مفہوم یہ کہ مسجد وسیع اور جگہ بہت ہو لیکن خواہ مخواہ قصداً ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھے جو باتیں کر رہا ہو، تو ایسا کرنا درست نہیں ہے، ورنہ اوپر حدیث میں گزرا کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سوئی ہوتیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: حسن وله شاھد عند الطبراني في المعجم الاوسط (6/ 118 ح 5242، وسنده حسن / معاذ علي زئي)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث959
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) گزشتہ حدیثوں سے معلوم ہوچکا ہے کہ سوئے ہوئے انسان کے پیچھے نماز پڑھنا جائزہے۔ اس حدیث سے اس کے برعکس معلوم ہوتاہے۔ اس لئے اس نہی کو تنزیہ طور پر محمول کیا جائےگا۔ یعنی اس سے اجتناب بہتر ہے۔ جبکہ اس سے نماز کے خشوع اور توجہ میں فرق آتا ہو۔
(2) جب سامنے کچھ لوگ بیٹھے باتیں کر رہے ہوں تب بھی نماز سے توجہ ہٹتی ہے اس لئے ایسی جگہ نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 959