الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
40. بَابُ : مَنْ صَلَّى وَبَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ شَيْءٌ
40. باب: نمازی اور قبلہ کے درمیان کوئی چیز حائل ہو تو نماز جائز ہے۔
حدیث نمبر: 959
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، حَدَّثَنِي أَبُو الْمِقْدَامِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُصَلَّى خَلْفَ الْمُتَحَدِّثِ وَالنَّائِمِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بات چیت کرنے والے، اور سوئے ہوئے شخص کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 959]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الصلاة 106 (694)، (تحفة الأشراف: 6448) (حسن) (تراجع الا ٔلبانی: رقم: 251)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یہ ممانعت تنزیہی ہے یعنی بہتر ہے کہ اس طرح نماز نہ ادا کی جائے، یا اس حدیث کا مفہوم یہ کہ مسجد وسیع اور جگہ بہت ہو لیکن خواہ مخواہ قصداً ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھے جو باتیں کر رہا ہو، تو ایسا کرنا درست نہیں ہے، ورنہ اوپر حدیث میں گزرا کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سوئی ہوتیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
وله شاھد عند الطبراني في المعجم الاوسط (6/ 118 ح 5242، وسنده حسن / معاذ علي زئي)

   سنن ابن ماجهنهى رسول الله أن يصلى خلف المتحدث والنائم

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 959 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث959  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
گزشتہ حدیثوں سے معلوم ہوچکا ہے کہ سوئے ہوئے انسان کے پیچھے نماز پڑھنا جائزہے۔
اس حدیث سے اس کے برعکس معلوم ہوتاہے۔
اس لئے اس نہی کو تنزیہ طور پر محمول کیا جائےگا۔
یعنی اس سے اجتناب بہتر ہے۔
جبکہ اس سے نماز کے خشوع اور توجہ میں فرق آتا ہو۔

(2)
جب سامنے کچھ لوگ بیٹھے باتیں کر رہے ہوں تب بھی نماز سے توجہ ہٹتی ہے اس لئے ایسی جگہ نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 959