عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”بنی اسرائیل کا معاملہ ہمیشہ ٹھیک ٹھاک رہا یہاں تک کہ ان میں وہ لوگ پیدا ہو گئے جو جنگ میں حاصل شدہ عورتوں کی اولاد تھے، انہوں نے رائے (قیاس) سے فتوی دینا شروع کیا، تو وہ خود بھی گمراہ ہوئے، اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 56]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8882)، (مصباح الزجاجة: 21) (ضعیف)» (سند میں سوید بن سعید ضعیف اور مدلس ہیں، اور کثرت سے تدلیس کرتے ہیں، ابن ابی الرجال کے بارے میں بوصیری نے کہا ہے کہ وہ حارثہ بن محمد عبد الرحمن ہیں، اور وہ ضعیف راوی ہیں، لیکن صحیح یہ ہے کہ وہ عبد الرحمن بن ابی الرجال محمد بن عبدالرحمن بن عبد اللہ بن حارثہ بن النعمان الانصاری المدنی ہیں، جو صدوق ہیں لیکن کبھی خطا ٔ کا بھی صدور ہوا ہے، ابن حجر فرماتے ہیں: «صدوق ربما أخطأ» ، نیز ملاحظہ ہو ''مصباح الزجاجة'' بتحقیق د؍عوض الشہری: 1/ 117- 118)
وضاحت: ۱؎: یعنی بنی اسرائیل میں ساری برائی رائے کے پھیلنے سے اور وحی سے اعراض کرنے سے ہوئی، اور ہر امت کی بربادی اسی طرح ہوتی ہے کہ جب وہ اپنی رائے کو وحی الٰہی پر مقدم کرتے ہیں تو برباد ہو جاتے ہیں، اس امت میں بھی جب سے کتاب و سنت سے اعراض پیدا ہوا، اور لوگوں نے باطل آراء اور فاسد قیاس سے فتوی دینا شروع کیا، اور پچھلوں نے ان کی آراء اور قیاس کو وحی الٰہی اور ارشاد رسالت پر ترجیح دی، جب ہی سے ایک صورت انتشار اور پھوٹ کی پیدا ہوئی اور مختلف مذاہب وجود میں آ گئے، اور امت میں اتحاد و اتفاق کم ہوتا گیا، اور ہر ایک نے کتاب و سنت سے اعراض کر کے کسی ایک کو اپنا امام و پیشوا مقرر کر کے اسی کو معیار کتاب و سنت ٹھہرایا، جب کہ اصل یہ ہے کہ ہر طرح کے مسائل میں مرجع اور مآخذ کتاب و سنت اور سلف صالحین کا فہم و منہج ہے، اور اس کی طرف رجوع ہونے میں امت کے اتحاد کی ضمانت ہے، اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ” «تركت فيكم أمرين لن تضلّوا ما إن تمسكتم بهما كتاب الله وسنتي»”میں تمہارے درمیان دو چیزیں یعنی کتاب و سنت چھوڑے جا رہا ہوں جب تک تم انہیں (عملاً) پکڑے رہو گے کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے“۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف حارثة بن أبي الرجال: ضعيف (تقريب: 1062) عبدة بن أبي لبابة لم يلق عبد اللّٰه بن عمرو بن العاص رضي اللّٰه عنه (انظر تحفة الأشراف 360/6) وللحديث شاهد ضعيف عند البزار(كشف الأستار: 166) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 376
حدثنا محمد ابن أبي عمر العدنى عن سفيان بن عيينة قال: لم يزل أمر الناس معتدلا حتى نشأ فلان بالكوفة وربيعة الرأي بالمدينة وعثمان البتي بالبصرة فوجدناهم من أبنائ سبايا الأمم.
سفیان بن عیینہ کہتے ہیں لوگوں کا معاملہ برابر ٹھیک رہا یہاں تک کہ کوفہ میں فلاں شخص، مدینہ میں ربیعۃ الرای، اور بصرہ میں عثمان البتی پیدا ہوئے، ہم نے انہیں جنگ میں قید کی جانے والی عورتوں کی اولاد میں سے پایا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 56M]