عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جانتا ہوں اس کو جو سب سے آخر میں جہنم سے نکلے گا، اور جنت میں سب سے آخر میں داخل ہو گا، وہ شخص جہنم سے گھسٹتا ہوا نکلے گا، اس سے کہا جائے گا: جاؤ اور جنت میں داخل ہو جاؤ وہ جنت تک آئے گا تو اس کو لگے گا کہ وہ بھری ہوئی ہے، وہ لوٹ جائے گا اس پر کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس کو بھری ہوئی پایا، اللہ فرمائے گا: جاؤ اور جنت میں داخل ہو جاؤ، وہ جنت تک آئے گا تو اس کو بھری ہوئی سمجھ کر پھر واپس چلا جائے گا، لوٹ کر کہے گا: اے میرے رب! وہ تو بھری ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جاؤ اور جنت میں داخل ہو جاؤ، تمہارے لیے دنیا اور اس کے مثل دس دنیاؤں کی جگہ (جنت میں) ہے، وہ کہے گا: کیا تو مجھ سے مذاق کر رہا ہے حالانکہ تو بادشاہ ہے؟، یہ حدیث بیان کرتے ہوئے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اتنا ہنسے کہ آپ کے اخیر کے دانت ظاہر ہو گئے، (یعنی کھل کھلا کر ہنس پڑے) کہا جاتا ہے کہ یہ شخص جنتیوں میں سب سے کم درجے والا ہو گا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4339]
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4339
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) جہنم سے نکلنے والے گناہگار اپنے اپنے درجے کے مطابق جہنم سے نکالے جائیں گے کم گناھوں والے پہلے اور زیادہ گناہوں والے بعد میں۔
(2) جتنا کوئی شخص زیادہ گناہوں والا ہے اسی قدر اس کا درجہ کم ہے۔
(3) کم سے کم والے جنتی کو بھی کسی بادشاہ کی سلطنت سے دس گیارہ گنا جگہ ملے گی۔
(4) بندے کو بار بار یہ احساس کہ جنت میں جگہ خالی نہیں اس لیے دلایا جائے گا کہ وہ جب جنت میں جائے تو اسے زیادہ خوشی حاصل ہو۔
(5) تعجب یا خوشی کے موقع پہ ہنسنا زہد و تقوی کے منافی نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4339