سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملے تو انہوں نے کہا: میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اور تمہیں جنت کے بازار میں ملا دے، سعید بن مسیب نے کہا: کیا وہاں بازار بھی ہو گا؟ فرمایا: ہاں، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ ”اہل جنت جب جنت میں داخل ہوں گے تو ان کے مراتب اعمال کے مطابق ان کو جگہ ملے گی، پھر ان کو دنیا کے دنوں میں سے جمعہ کے دن کے برابر اجازت دی جائے گی، وہ اللہ عزوجل کی زیارت کریں گے، اللہ تعالیٰ ان کے لیے اپنا عرش ظاہر کرے گا، اور ان کے سامنے جنت کے باغات میں سے ایک باغ میں جلوہ افروز ہو گا، ان کے لیے منبر رکھے جائیں گے، نور کے منبر، موتی کے منبر، یاقوت کے منبر، زبرجد کے منبر، سونے اور چاندی کے منبر اور ان میں سے کم تر درجے والا (حالانکہ ان میں کم تر کوئی نہ ہو گا) مشک و کافور کے ٹیلوں پر بیٹھے گا، اور ان کو یہ خیال نہ ہو گا کہ کرسیوں والے ان سے زیادہ اچھی جگہ بیٹھے ہیں“۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟ فرمایا: ”ہاں، کیا تم سورج اور چودھویں کے چاند کو دیکھنے میں جھگڑتے ہو“؟ ہم نے کہا: نہیں، فرمایا: ”اسی طرح تم اپنے رب عزوجل کو دیکھنے میں جھگڑا نہیں کرو گے اور اس مجلس میں کوئی شخص نہیں بچے گا مگر اللہ تعالیٰ ہر شخص سے گفتگو کرے گا، یہاں تک کہ وہ ان میں سے ایک شخص سے کہے گا: اے فلاں! کیا تمہیں یاد نہیں کہ ایک دن تم نے ایسا ایسا کیا تھا؟ (اس کو دنیا کی بعض غلطیاں یاد دلائے گا) تو وہ کہے گا: اے میرے رب! کیا تم نے مجھے معاف نہیں کیا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیوں نہیں، میری وسیع مغفرت ہی کی وجہ سے تو اس درجے کو پہنچا ہے، وہ سب اسی حالت میں ہوں گے کہ ان کو اوپر سے ایک بادل ڈھانپ لے گا، اور ایسی خوشبو برسائے گا جو انہوں نے کبھی نہ سونگھی ہو گی، پھر فرمائے گا: اب اٹھو اور جو کچھ تمہاری مہمان نوازی کے لیے میں نے تیار کیا ہے اس میں سے جو چاہو لے لو، فرمایا: پھر ہم ایک بازار میں آئیں گے جس کو فرشتوں نے گھیر رکھا ہو گا، اس میں وہ چیزیں ہوں گی جن کے مثل نہ آنکھوں نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا، اور نہ دلوں نے سوچا، (فرمایا) ہم جو چاہیں گے ہمارے لیے پیش کر دیا جائے گا، اس میں کسی چیز کی خرید و فروخت نہ ہو گی، اس بازار میں اہل جنت ایک دوسرے سے ملیں گے، ایک اونچے مرتبے والا شخص آگے بڑھے گا اور اپنے سے نیچے درجے والے سے ملے گا (حالانکہ ان میں کوئی کم درجے کا نہ ہو گا) وہ اس کے لباس کو دیکھ کر مرعوب ہو گا، لیکن یہ دوسرا شخص اپنی گفتگو پوری نہ کر پائے گا کہ اس پر اس سے بہتر لباس آ جائے گا، ایسا اس لیے ہے کہ جنت میں کسی کو کسی چیز کا غم نہ رہے“۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: پھر ہم اپنے گھروں کو لوٹیں گے، تو ہماری بیویاں ہم سے ملیں گی، اور خوش آمدید کہیں گی، اور کہیں گی کہ تم آ گئے اور تمہاری خوبصورتی اور خوشبو اس سے کہیں عمدہ ہے جس میں تم ہمیں چھوڑ کر گئے تھے، تو ہم کہیں گے: آج ہم اپنے رب کے پاس بیٹھے، اور یہ ضروری تھا کہ ہم اسی حال میں لوٹتے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4336]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/صفة الجنة 15 (2549)، (تحفة الأشراف: 13091) (ضعیف)» (سند میں عبد الحمید ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 1722)
أهل الجنة إذا دخلوها نزلوا فيها بفضل أعمالهم ثم يؤذن في مقدار يوم الجمعة من أيام الدنيا فيزورون ربهم ويبرز لهم عرشه ويتبدى لهم في روضة من رياض الجنة فتوضع لهم منابر من نور ومنابر من لؤلؤ ومنابر من ياقوت ومنابر من زبرجد ومنابر من ذهب ومنابر من فضة ويجلس أد
أهل الجنة إذا دخلوها نزلوا فيها بفضل أعمالهم فيؤذن لهم في مقدار يوم الجمعة من أيام الدنيا فيزورون الله ويبرز لهم عرشه ويتبدى لهم في روضة من رياض الجنة فتوضع لهم منابر من نور ومنابر من لؤلؤ ومنابر من ياقوت ومنابر من زبرجد ومنابر من ذهب ومنابر من فضة ويجلس