الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الزهد
کتاب: زہد و ورع اور تقوی کے فضائل و مسائل
10. بَابُ : مَعِيشَةِ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
10. باب: آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی معیشت (گزر بسر) کا بیان۔
حدیث نمبر: 4148
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى , حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمَسْعُودِيُّ , عَنْ عَلِيِّ بْنِ بَذِيمَةَ , عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا أَصْبَحَ فِي آلِ مُحَمَّدٍ إِلَّا مُدٌّ مِنْ طَعَامٍ , أَوْ:" مَا أَصْبَحَ فِي آلِ مُحَمَّدٍ مُدٌّ مِنْ طَعَامٍ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آل محمد کے پاس کبھی ایک مد غلہ سے زیادہ نہیں رہا، یا آل محمد کے پاس کبھی ایک مد غلہ نہیں رہا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4148]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12445، ومصباح الزجاجة: 1472) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں انقطاع ہے، ابو عبیدہ نے اپنے والد عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا نہیں ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2404)

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
أبو عبيدة عن أبيه: منقطع
والصحيح ما رواه البخاري(2508) ’’ ما أصبح لآل محمد ﷺ إلا صاع‘‘ أو ما رواه الترمذي (1215) وغيره ’’ ما أمسي عند آل محمد ﷺ صاع من تمر ولا صاع حب ‘‘
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 526

   سنن ابن ماجهما أصبح في آل محمد إلا مد من طعام أو ما أصبح في آل محمد مد من طعام

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 4148 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4148  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مد سے مراد صاع کا چوتھا حصہ ہے جس کی مقدار تقریباً ساڑھے چھ سو گرام ہوتی ہے۔

(2)
رسول اللہﷺ کے اس اظہار سے مقصود شکوہ نہیں بلکہ صبر وشکر میں اپنا اسوۃ حسنہ پیش کرنا ہے تاکہ صحابہ اور امت کے دوسرے افراد اس کی اتباع کر سکیں۔

(3)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نےاسے صحیح قراردیا ہے۔
دکتور بشار عواد اس کی بابت لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے لیکن متناً صحیح ہےنیز شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے صحیح قراردیا ہے۔
مذکورہ محققین کی بحث پڑھنے کے بعد یہی معلوم ہوتا ہے کہ تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب ہے۔
واللہ اعلم۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الصحيحة للألباني، رقم: 2404 وسنن ابن ماجة بتحقيق الدكتور بشار عواد، رقم: 4148)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4148