انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس میں تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کا ذائقہ پائے گا، (بندار کی روایت میں ہے کہ وہ ایمان کی حلاوت (مٹھاس) پائے گا) ایک وہ شخص جو کسی سے صرف اللہ کے لیے محبت کرتا ہو، دوسرے وہ جسے اللہ اور اس کا رسول دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں، تیسرے وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے کفر سے نجات دی، اس کے بعد اسے آگ میں ڈالا جانا تو پسند ہو، لیکن کفر کی طرف پلٹ جانا پسند نہ ہو“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4033]
ثلاث من كن فيه وجد حلاوة الإيمان أن يكون الله ورسوله أحب إليه مما سواهما أن يحب المرء لا يحبه إلا لله أن يكره أن يعود في الكفر كما يكره أن يقذف في النار
لا يجد أحد حلاوة الإيمان حتى يحب المرء لا يحبه إلا لله حتى أن يقذف في النار أحب إليه من أن يرجع إلى الكفر بعد إذ أنقذه الله حتى يكون الله ورسوله أحب إليه مما سواهما
ثلاث من كن فيه وجد حلاوة الإيمان من كان الله ورسوله أحب إليه مما سواهما من أحب عبدا لا يحبه إلا لله من يكره أن يعود في الكفر بعد إذ أنقذه الله كما يكره أن يلقى في النار
ثلاث من كن فيه وجد حلاوة الإيمان أن يكون الله ورسوله أحب إليه مما سواهما أن يحب المرء لا يحبه إلا لله أن يكره أن يعود في الكفر كما يكره أن يقذف في النار
ثلاث من كن فيه وجد بهن حلاوة الإيمان من كان الله ورسوله أحب إليه مما سواهما أن يحب المرء لا يحبه إلا لله أن يكره أن يعود في الكفر بعد أن أنقذه الله منه كما يكره أن يقذف في النار
ثلاث من كن فيه وجد طعم الإيمان من كان يحب المرء لا يحبه إلا لله من كان الله ورسوله أحب إليه مما سواهما من كان أن يلقى في النار أحب إليه من أن يرجع في الكفر بعد أن أنقذه الله منه
ثلاث من كن فيه وجد بهن طعم الإيمان من كان الله ورسوله أحب إليه مما سواهما أن يحب المرء لا يحبه إلا لله أن يكره أن يعود في الكفر بعد إذ أنقذه الله منه كما يكره أن يقذف في النار
ثلاث من كن فيه وجد بهن حلاوة الإسلام من كان الله ورسوله أحب إليه مما سواهما من أحب المرء لا يحبه إلا لله من يكره أن يرجع إلى الكفر كما يكره أن يلقى في النار
ثلاث من كن فيه وجد بهن حلاوة الإيمان وطعمه أن يكون الله ورسوله أحب إليه مما سواهما أن يحب في الله وأن يبغض في الله أن توقد نار عظيمة فيقع فيها أحب إليه من أن يشرك بالله شيئا
ثلاث من كن فيه وجد طعم الإيمان من كان يحب المرء لا يحبه إلا لله من كان الله ورسوله أحب إليه مما سواهما من كان أن يلقى في النار أحب إليه من أن يرجع في الكفر بعد إذ أنقذه الله منه
ثلاث من كن فيه وجد بهن حلاوة الإيمان: من كان الله ورسوله احب إليه مما سواهما ومن احب عبدا لا يحبه إلا لله ومن يكره ان يعود في الكفر بعد ان انقذه الله منه كما يكره ان يلقى في النار
ثلاث من كن فيه فقد ذاق طعم الإيمان ، من كان لا شيء أحب إليه من الله ورسوله ، ومن كان لأن يحرق بالنار أحب إليه من أن يرتد عن دينه ، ومن كان يحب لله ويبغض لله
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4033
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اللہ کے لیے محبت کا مطلب یہ ہے کہ دوست سے محبت کی بنیاد خاندان، قبیلہ، زبان، وطن یا دنیوی مفاد نہ ہو بلکہ کسی سے اس لیے محبت ہوکہ وہ اللہ کے احکام کی تعمیل کرنے والا نیک آدمی ہے۔
(2) اللہ اور اس کے رسول اللہﷺ سے محبت زیادہ ہونے کی علامت یہ ہے کہ جب بیوی بچوں، ماں باپ، دوست احباب یا دنیوی مفادات کا تقاضا کسی شرعی حکم کی خلاف ورزی کا ہو تو ان سب کو نظر انداز کرکے ان کی ناراضی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کا حکم مان لیاجائے۔
(3) مومن کفر سے اور کافروں کے رسم ورواج سے نفرت کرتا ہے اور مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں سے محبت اور انکی مدد نہیں کرتا کیونکہ کافروں کی طرف میلان میں خطرہ ہے کہ ایمان کمزور ہو کر آخر وہ مرحلہ آجائے جب ایمان بالکل ختم ہوجائے۔ أعاذنا الله منه۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4033
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 8
´ایمان کے بنیادی تقاضے ` «. . . وَعَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ بِهِنَّ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ: مَنْ كَانَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا وَمَنْ أَحَبَّ عَبْدًا لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ - [11] - وَمَنْ يَكْرَهُ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ بَعْدَ أَنْ أَنْقَذَهُ اللَّهُ مِنْهُ كَمَا يكره أَن يلقى فِي النَّار " . . .» ”. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین باتیں ایسی ہیں کہ جن میں وہ تینوں باتیں ہوں گی وہ ایمان کی شیرینی اور اس کے مزہ کو پائے گا، اللہ اور اس کے رسول کی محبت اس کو تمام چیزوں سے زیادہ ہو، جس شخص سے محبت رکھے تو صرف اللہ ہی کے لیے محبت رکھے، ایمان لانے کے بعد کفر کی طرف لوٹنے سے اتنی سخت نفرت ہو جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے سے اس کو نفرت ہے . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 8]
تخریج الحدیث: [صحيح بخاري 21]، [صحيح مسلم 165]
فقہ الحدیث ➊ اس حدیث اور دوسری احادیث و آیات سے صاف ظاہر ہے کہ ایمان کے درجے ہیں، لہٰذا لوگ ان درجوں میں مختلف ہیں، کسی کا ایمان زیادہ ہے اور کسی کا ایمان کم ہے۔ سب سے اعلیٰ درجے کا ایمان نبیوں اور رسولوں کا ایمان ہوتا ہے، پھر صحابہ کا اور پھر تابعین کا، لہٰذا جو شخص انبیاء و صحابہ کے ایمان کو ایک عام آدمی کے ایمان کے برابر سمجھتا ہے، اس شخص کا عقیدہ غلط اور باطل ہے۔ ➋ جس طرح انسان طبعیت کے لحاظ سے میٹھی چیز پسند کرتا ہے، اسی طرح اسے چاہئے کہ ایمان کے تمام درجات کو اپنی زندگی میں لانے کی مسلسل کوشش کرتا رہے، تاکہ اس کا ایمان زیادہ سے زیاہ ہی ہوتا جائے۔ ➌ ❀ ایک حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص (ایک) اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے رسول ہونے پر راضی ہے، اس نے ایمان کا مزہ چکھ لیا۔ [صحيح مسلم: 34/56، مشكوة المصابيح: 9، اضواء المصابيح: 9] ➍ اس حدیث میں «مما سواهما» تثنیہ کا صیغہ اس لئے آیا ہے کہ اللہ اور رسول سے بیک وقت محبت کرنا ہی ایمان و اسلام کا تقاضا و رکن ہے، لہٰذا جو لوگ اللہ سے محبت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم (کی احادیث) سے محبت نہیں کرتے تو ان کا دعویٰ ایمان باطل ہے۔ ➎ اس حدیث اور دیگر دلائل سے ثابت ہے کہ امت محمدیہ کے لئے خود آگ میں چھلانگ لگانا جائز نہیں بلکہ حرام ہے۔ ➏ اسلام قبول کرنے کے بعد اس سے انحراف، آگ میں کودنے کے مترادف ہے۔
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 16
´ایمان کی مٹھاس کا مفہوم` «. . . عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ، أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ " . . . .» ”. . . انس رضی اللہ عنہ سے ناقل ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہو جائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا۔ اول یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بن جائیں، دوسرے یہ کہ وہ کسی انسان سے محض اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھے۔ تیسرے یہ کہ وہ کفر میں واپس لوٹنے کو ایسا برا جانے جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ/بَابُ حَلاَوَةِ الإِيمَانِ: 16]
� لغوی توضیح: «حَلَاوَةَ الْاِيْمَان» ایمان کی مٹھاس۔ اہل علم نے ایمان کی مٹھاس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ بندے کو نیکی کے کام بجا لانے میں مزہ آئے، اللہ اور رسول کی خوشنودی کے لئے مشقتیں برداشت کر جائے، دنیوی اشیاء پر اللہ اور رسول کی رضا کو ترجیح دے اور اپنے رب اور پیغمبر کی اطاعت کر کے اور ان کی مخالفت سے بچ کر ان سے محبت کا اظہار کرے۔ [شرح مسلم للنوي 96/2]
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 26
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 16
´ایمان کی کمی و زیادتی` «. . . عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ، أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ . . .» ”. . . انس رضی اللہ عنہ سے ناقل ہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہو جائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا۔ اول یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بن جائیں، دوسرے یہ کہ وہ کسی انسان سے محض اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھے۔ تیسرے یہ کہ وہ کفر میں واپس لوٹنے کو ایسا برا جانے جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 16]
� تشریح: یہاں بھی حضرت امام المحدثین رحمہ اللہ نے مرجیہ اور ان کے کلی و جزوی ہم نواؤں کے عقائد فاسدہ پر ایک کاری ضرب لگائی ہے اور ایمان کی کمی و زیادتی اور ایمان پر اعمال کے اثر انداز ہونے کے سلسلے میں استدلال کیا ہے اور بتلایا ہے کہ ایمان کی حلاوت کے لیے اللہ و رسول کی حقیقی محبت، اللہ والوں کی محبت اور ایمان میں استقامت لازم ہے۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وفي قوله حلاوة الايمان استعارة تخييلية شبه رغبة المومن فى الايمان بشئي حلو واثبت له لازم ذلك الشي واضافه اليه وفيه تلميح الي قصة المريض والصحيح لان المريض الصفراوي يجد طعم العسل مرا والصحيح يذوق حلاوته على ماهي عليه و كلما نقصت الصحة شيئا مانقص ذوقه بقدر ذلك هذه الاستعارة من اوضح مايقوي استدلال المصنف على الزيادة والنقص۔» یعنی ایمان کے لیے لفظ حلاوت بطور استعارہ استعمال فرماکر مومن کی ایمانی رغبت کو میٹھی چیز کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور اس کے لازمہ کو ثابت کیا گیا ہے اور اسے اس کی طرف منسوب کیا اس میں مریض اور تندرست کی تشبیہ پر بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ صفر اوی مریض شہد کو بھی چکھے گا تو اسے کڑوا بتلائے گا اور تندرست اس کی مٹھاس کی لذت حاصل کرے گا۔ گویا جس طرح صحت خراب ہونے سے شہد کا مزہ خراب معلوم ہونے لگتا ہے۔ اسی طرح معاصی کا صفرا جس کے مزاج پر غالب ہے، اسے ایمان کی حلاوت نصیب نہ ہو گی۔ ایمان کی کمی و زیادتی کو ثابت کرنے کے لیے مصنف کا یہ نہایت واضح اور قوی تراستدلال ہے۔
حدیث مذکورمیں حلاوت ایمان کے لیے تین خصلتیں پیش کی گئی ہیں۔ شیخ محی الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث دین کی ایک اصل عظیم ہے۔ اس میں پہلی چیز اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو قرار دیا گیا ہے جس سے ایمانی محبت مراد ہے۔ اللہ کی محبت کا مطلب یہ کہ توحید الوہیت میں اسے «وحده لاشريك له» یقین کر کے عبادت کی جملہ اقسام صرف اس اکیلے کے لیے عمل میں لائی جائیں اور کسی بھی نبی، ولی، فرشتے، جن، بھوت، دیوی، دیوتا، انسان وغیرہ وغیرہ کو اس کی عبادت کے کاموں میں شریک نہ کیاجائے۔ کیونکہ کلمہ «لا اله الا الله» کا یہی تقاضا ہے۔ جس کے متعلق حضرت علامہ نواب صدیق حسن خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ”الدین الخالص“ میں فرماتے ہیں: «وفي هذه الكلمة نفي واثبات، نفي الالوهية عما سوي الله تعالىٰ من المرسلين حتيٰ محمدصلى الله عليه وسلم والملئكة حتي جبرئيل عليه السلام فضلا عن غيرهم من الاولياءوالصالحين واثباتها له وحده لاحق فى ذالك لاحد من المقريبن اذا فهمت ذلك فتامل هذه الالوهية التى اثبتها كلها لنفسه المقدسة ونفي عن محمدوجبرئيل وغيرهما عليهم السلام ان يكون لهم مثقال حبة خردل منها»[الدين الخاص،ج1 ص: 182]
یعنی اس کلمہ طیبہ میں نفی اور اثبات ہے۔ اللہ پاک کی ذات مقدس کے سوا ہر چیز کے لیے الوہیت کی نفی ہے۔ حتیٰ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم و حضرت جبرئیل علیہ السلام کے لیے بھی نفی ہے۔ پھر دیگر اولیاء و صلحاءکا تو ذکر ہی کیا ہے۔ الوہیت خالص اللہ پاک کے لیے ثابت ہے اور مقربین میں سے کسی کے لیے اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ جب تم نے یہ سمجھ لیا تو غور کرو کہ یہ الوہیت وہ ہے جس کو اللہ پاک نے خاص اپنی ہی ذات مقدسہ کے لیے ثابت کیا ہے اور اپنے ہر غیر حتیٰ کہ محمد و جبرئیل علیہما السلام تک سے اس کی نفی کی ہے، ان کے لیے ایک رائی کے دانہ برابر بھی الوہیت کا کوئی حصہ حاصل نہیں۔ پس حقیقی محبت الٰہی کا یہی مقام ہے جو لوگ اللہ کی الوہیت میں اس کی عبادت کے کاموں میں اولیاء صلحاء یا انبیاء و ملائکہ کو شریک کرتے ہیں۔
«ويظنون الله جعل نحوا من الخلق منزلة يرضي ان العامي يلتجئي اليهم ويرجوهم ويخالفهم ويستغيث بهم ويستعين منهم بقضاءحوائجه واسعاف مرامه وانجاح مقامه ويجعلهم وسائط بينه وبين الله تعالىٰ هي الشرك الجلي الذى لايغفرالله تعالىٰ ابدا»[حواله مذكور] اور گمان کرتے ہیں کہ اللہ نے اپنے خاص بندوں کو ایسا مقام دے رکھا ہے کہ عوام ان کی طرف پناہ ڈھونڈیں، ان سے اپنی مرادیں مانگیں، ان سے استعانت کریں اور قضائے حاجات کے لیے ان کو اللہ کے درمیان وسیلہ ٹھہرا دیں۔ یہ وہ شرک جلی ہے جس کو اللہ پاک ہرگز ہرگز نہیں بخشے گا۔ «ان الله لايغفران يشرك به ويغفرمادون ذلك لمن يشاء»[النساء: 48] یعنی بے شک اللہ شرک کو نہیں بخشے گا اس کے علاوہ جس گناہ کو چاہے بخش دے گا۔
”رسول“ کی محبت سے ان کی اطاعت و فرمانبرداری مراد ہے اس کے بغیر محبت رسول کا دعویٰ غلط ہے۔ نیز محبت رسول کا تقاضا ہے کہ آپ کا ہر فرمان بلند و بالا تسلیم کیا جائے۔ اور ا س کے مقابلہ پر کسی کا کوئی حکم نہ مانا جائے۔ پس جو لوگ صحیح احادیث مرفوعہ کی موجودگی میں اپنے مزعومہ اماموں کے اقوال کو مقدم رکھتے ہیں اور اللہ کے رسول کے فرمان کو ٹھکرا دیتے ہیں ان کے متعلق سید العلامہ حضرت نواب صدیق حسن خاں صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «تامل فى مقلدة المذاهب كيف اقروا على انفسهم بتقليدالاموات من العلماءوالاولياءواعترفوا بان فهم الكتاب والسنة كان خاصا لهم واستدلوا لاشراكهم فى الصلحاءبعبارات القوم ومكاشفات الشيوخ فى النوم ورجحوا كلام الامة والائمة على كلام الله تعالىٰ و رسوله على بصيرة منهم وعلي علم فماندري ماعذرهم عن ذلك غدا يوم الحساب والكتاب ومايحميهم من ذلك العذاب والعقاب۔»[الدين الخاص،ج: 1ص: 196] یعنی مذاہب معلومہ کے مقلدین میں غور کرو کہ علماء و اولیاء جو دنیا سے رخصت ہو چکے، ان کی تقلید میں کس طور پر گرفتار ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن و حدیث کا سمجھنا ان ہی اماموں پر ختم ہو چکا، یہ خاص ان ہی کا کام تھا۔ صلحاء کو عبادت الٰہی میں شریک کرنے کے لیے عبارات قوم سے کتربیونت کر کے دلیل پکڑتے ہیں اور شیوخ کے مکاشفات سے جو ان کے خوابوں سے متعلق ہوتے ہیں اور امت اور ائمہ کے کلام کو اللہ و رسول کے کلام پر ترجیح دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ روش صحیح نہیں ہے۔ ہم نہیں جان سکتے کہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے یہ لوگ کیاعذر بیان کریں گے اور اس دن کے عذاب سے ان کو کون چیز نجات دلا سکے گی۔
الغرض اللہ ورسول کی محبت کا تقاضا یہی ہے جو اوپر بیان ہوا ورنہ صادق آئے گا۔ ❀ تعصی الرسول و انت تظہر حبہ ٭ ہذا لعمری فی القیاس بدیع ❀ لو کان حبک صادقا لاطعتہ ٭ ان المحب لمن یحب مطیع
اس حدیث نبوی میں دوسری خصلت بھی بہت ہی اہم بیان کی گئی ہے کہ مومن کامل وہ ہے جس کی لوگوں سے محبت خاص اللہ کے لیے ہو اور دشمنی بھی خالص اللہ کے لیے ہو۔ نفسانی اغراض کا شائبہ بھی نہ ہو۔ جیسا کہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی بابت مروی ہے کہ ایک کافر نے جس کی چھاتی پر آپ چڑھے ہوئے تھے آپ کے منہ پر تھوک دیا۔ تو آپ فوراً ہٹ کر اس کے قتل سے رک گئے اور یہ فرمایا کہ اب میرا یہ قتل کرنا اللہ کے لیے نہ ہوتا۔ بلکہ اس کے تھوکنے کی وجہ سے یہ اپنے نفس کے لیے ہوتا اور مؤمن صادق کا یہ شیوہ نہیں کہ اپنے نفس کے لیے کسی سے عداوت یا محبت رکھے۔
تیسری خصلت میں اسلام و ایمان پر استقامت مراد ہے۔ حالات کتنے ہی ناسازگار ہوں ایک سچا مومن دولت ایمان کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ بلاشک جس میں یہ تینوں خصلتیں جمع ہوں گی اس نے درحقیقت ایمان کی لذت حاصل کی پھر وہ کسی حال میں بھی ایمان سے محرومی پسند نہ کرے گا اور مرتد ہونے کے لیے کبھی بھی تیار نہ ہو سکے گا۔ خواہ وہ شہید کر دیا جائے، اسلامی تاریخ کی ماضی و حال میں ایسی بہت ہی مثالیں موجود ہیں کہ بہت سے مخلص بندگان مسلمین نے جام شہادت پی لیا مگر ارتداد کے لیے تیار نہ ہوئے۔ اللہ پاک ہر مسلمان مرد و عورت کے اندر ایسی ہی استقامت پیدا فرمائے۔آمین
ابونعیم نے مستخرج میں حسن بن سفیان عن محمد بن المثنیٰ کی روایت سے «ويكره ان يعود فى الكفر» کے آگے «بعد اذا نقذه الله» کے الفاظ زیادہ کئے ہیں۔ خود امام بخاری قدس سرہ نے بھی دوسری سند سے ان لفظوں کا اضافہ نقل فرمایا ہے۔ جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ ان لفظوں کا ترجمہ یہ کہ وہ کفر میں واپس جانا مکروہ سمجھے اس کے بعد کہ اللہ پاک نے اسے اس سے نکالا۔ مراد وہ لوگ ہیں جو پہلے کافرتھے بعد میں اللہ نے اس کو ایمان و اسلام نصیب فرمایا۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «هذا الاسناد كله بصريون» یعنی اس سند میں سب کے سب بصری راوی واقع ہوئے ہیں۔
ایک اشکال اور ا س کا جواب: حدیث مذکورمیں «ان يكون الله ورسوله احب اليه مما سواهما» فرمایا گیا ہے۔ جس میں ضمیر تثنیہ «هما» میں اللہ اور رسول ہر دو کو جمع کر دیا گیا ہے۔ یہ جمع کرنا اس حدیث سے ٹکراتا ہے جس میں ذکر ہے کہ کسی خطیب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک خطبہ بایں الفاظ دیا تھا «من يطع الله ورسوله فقد رشد ومن يعصهما» آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اظہار خفگی کے لیے فرمایا: «بئس الخطيب انت» یعنی تم اچھے خطیب نہیں ہو۔ آپ کی یہ خفگی یہاں ضمیر «(هما)» پر تھی جب کہ خطیب نے «”يعصهما“» کہہ دیا تھا۔ اہل علم نے اس اشکال کے کئی جواب دئیے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ تعلیم اور خطبہ کے مواقع الگ الگ ہیں۔ حدیث ہذا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور معلم اختصار و جامعیت کے پیش نظر یہاں «”هما“» ضمیر استعمال فرمائی اور خطیب نے خطبہ کے موقع پر جب کہ تفصیل و تطویل کا موقع تھا۔ اختصار کے لیے «”ہما“» ضمیر استعمال کی جو بہتر نہ تھی۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر خفگی فرمائی۔ کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ حدیث مذکور میں مقام محبت میں ہر دو کو جمع کیا گیا ہے جو بالکل درست ہے کیونکہ اللہ و رسول کی محبت لازم و ملزوم، ہر دو کی محبت جمع ہو گئی تو نجات ہو گئی اور ایمان کا مدار ہر دو کی محبت پر ہے اور خطیب مذکور نے معصیت کے معاملہ میں دونوں کو جمع کر دیا تھا جس سے وہم پیدا ہو سکتا تھا کہ ہر دو کی معصیت نقصان کا باعث ہے اور اگر کسی نے ایک کی اطاعت کی اور ایک کی نافرمانی تو یہ موجب نقصان نہیں حالانکہ ایسا خیال بالکل غلط ہے۔ اس لیے کہ اللہ کی اطاعت نہ کرنا بھی گمراہی اور رسول کی نافرمانی بھی گمراہی، اس لیے وہاں الگ الگ بیان ضروری تھا، اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی کہ تم کو خطبہ دینا نہیں آتا۔
امام طحاوی رحمہ اللہ نے مشکل الآثار میں یوں لکھا ہے کہ خطیب مذکور نے لفظ «”ومن یعصہما“» پر سکتہ کر دیا تھا اور ٹھہر کر بعد میں کہا «”فقد غوی“» اس سے ترجمہ یہ ہو گیا تھا کہ جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے تو نیک ہے اور جو نافرمانی کرے وہ بھی، اس طرز ادا سے بڑی بھاری غلطی کا امکان تھا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطیب کو تنبیہ فرمائی۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ حدیث مذکورہ میں «”مماسواهما“» کے الفاظ استعمال کئے گئے۔ «”ممن سواهما“» نہیں فرمایا گیا، اس لیے کہ الفاظ سابقہ میں بطور عموم اہل عقل اور غیر اہل عقل یعنی انسان حیوان، جانور، نباتات، جمادات سب داخل ہیں۔ «”ممن سواهما“» کہنے میں خاص اہل عقل مراد ہوتے، اس لیے «”سواهما“» کے الفاظ استعمال کئے گئے اور اس میں اس پر بھی دلیل ہے کہ اس تنبیہ کے استعمال میں کوئی برائی نہیں۔
حدیث مذکورہ میں اس امر پر بھی اشارہ ہے کہ نیکیوں سے آراستہ ہونا اور برائیوں سے دور رہنا تکمیل ایمان کے لیے ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 16
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 21
´ کفر کو کسی حالت میں برداشت نہ کرنا` «. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ، مَنْ كَانَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَمَنْ أَحَبَّ عَبْدًا لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَمَنْ يَكْرَهُ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَهُ اللَّهُ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ . . .» ”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص میں یہ تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کا مزہ پالے گا، ایک یہ کہ وہ شخص جسے اللہ اور اس کا رسول ان کے ماسوا سے زیادہ عزیز ہوں اور دوسرے یہ کہ جو کسی بندے سے محض اللہ ہی کے لیے محبت کرے اور تیسری بات یہ کہ جسے اللہ نے کفر سے نجات دی ہو، پھر دوبارہ کفر اختیار کرنے کو وہ ایسا برا سمجھے جیسا آگ میں گر جانے کو برا جانتا ہے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 21]
� تشریح: ظاہر ہے کہ جس شخص کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت فی الحقیقت بیٹھ جائے وہ کفر کو کسی حالت میں برداشت نہیں کرے گا۔ لیکن اس محبت کا اظہار محض اقرار سے نہیں بلکہ اطاعت احکام اور مجاہدہ نفس سے ہوتا ہے اور ایسا ہی آدمی درحقیقت اسلام کی راہ میں مصیبتیں جھیل کر بھی خوش رہ سکتا ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جملہ عادات پاکیزہ اور استقامت یہ سب ایمان میں داخل ہیں۔ ابھی پیچھے یہی حدیث ذکر ہو چکی ہے۔ جس میں «بعد اذ انقذه الله» کے لفظ نہیں تھے۔ مزید تفصیل کے لیے پچھلی احادیث کا مطالعہ کیا جائے۔
حضرات نواب صدیق حسن خاں رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: «وهذا الحديث بمعني حديث ذاق طعم الايمان من رضي بالله ربا وبالاسلام دينا وبمحمدصلى الله عليه وسلم رسولاوذلك انه لايصح المحبة لله ورسوله حقيقة وحب الادمي فى الله ورسوله وكراهة الرجوع الي الكفر لايكون الالمن قوي الايمان يقينه واطمانت به نفسه وانشرح له صدره وخالط لحمه ودمه وهذا هوالذي وجد حلاوته والحب فى الله من ثمرات حب الله»[سراج الوهاج، ص: 36] یعنی یہ حدیث دوسری حدیث «ذاق طعم الايمان الخ» ہی کے معنی میں ہے جس میں وارد ہے کہ ایمان کا مزہ اس نے چکھ لیا جو اللہ سے ازروئے رب ہونے کے راضی ہو گیا اور یہ نعمت اسی خوش نصیب انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ جس کے ایمان نے اس کے یقین کو طاقتور کر دیا ہو اور اس سے اس کا نفس مطمئن ہو گیا اور اس کا سینہ کھل گیا اور ایمان و یقین اس کے گوشت پوست اور خون میں داخل ہو گیا۔ یہی وہ خوش نصیب ہے جس نے ایمان کی حلاوت پائی اور اللہ کے لیے اس کے نیک بندوں کی محبت اللہ ہی کی محبت کا پھل ہے۔ پھر آگے حضرت نواب صاحب صدیق حسن خاں رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ محبت دلی میلان کا نام ہے۔ کبھی یہ حسین و جمیل صورتوں کی طرف ہوتا ہے، کبھی اچھی آواز یا اچھے کھانے کی طرف، کبھی یہ لذت میلان باطنی معانی سے متعلق ہوتی ہے۔ جیسے صالحین و علماء و اہل فضل سے ان کے مراتب کمال کی بنا پر محبت رکھنا۔ کبھی محبت ایسے لوگوں سے پیدا ہو جاتی ہے جو صاحب احسان ہیں۔ جنہوں نے تکالیف اور مصائب کے وقت مدد کی ہے۔ ایسے لوگوں کی محبت بھی مستحسن ہے اور اس قسم کی جملہ خوبیاں اللہ کے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی میں جمع ہیں۔ آپ کا جمال ظاہر و باطن اور آپ کے خصال حمیدہ اور فضائل اور جمیع المسلمین پر آپ کے احسانات ظاہر ہیں۔ اس لیے آپ کی محبت عین تقاضائے ایمان ہے۔
آگے حضرت نواب صدیق حسن خاں رحمۃ اللہ علیہ نے عشق مجازی پر ایک طویل تبصرہ فرماتے ہوئے بتلایا ہے کہ: «ومن اعظم مكائد الشيطان مافتن به عشاق صور المرد والنسوان وتلك لعمرالله فتنة كبريٰ وبلية عظميٰ الخ۔» یعنی شیطان کے عظیم تر جالوں میں سے ایک یہ جال ہے جس میں بہت سے عشاق مبتلا رہتے چلے آئے ہیں اور اس وقت بھی موجود ہیں جو لڑکوں اور عورتوں کی صورتوں پر عاشق ہو کر اپنی دنیا و آخرت تباہ کر لیتے ہیں اور قسم اللہ کی یہ بہت ہی بڑا فتنہ اور بہت ہی بڑی مصیبت ہے۔ اللہ ہر مرد مسلمان کو اس سے محفوظ رکھے۔ آمین
حضرت امام المفسرین ناصرالمحدثین نواب صاحب مرحوم دوسری جگہ اپنے مشہور مقالہ تحریم الخمر میں فرماتے ہیں: ”مرض عشق کو شراب و زنا کے ساتھ مثل غنا کے ایک مناسبت خاص ہے۔ یہ مرض شہوت فرج سے پیدا ہوتا ہے۔ جس کسی مزاج پر شہوت غالب آ جاتی ہے تو یہ بیماری اس شہوت پرست کو پکڑ لیتی ہے جب وصال معشوق محال ہوتا ہے یا میسر نہیں آتا تو عشق سے حرکات بےعقلی ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ لہٰذا کتب دین میں ”عشق“ کی مذمت آئی ہے اور اس کا انجام شرک ٹھہرایا ہے۔ قرآن و حدیث میں کسی جگہ اس منحوس لفظ کا استعمال نہیں ہوا۔ قصہ زلیخا میں افراط محبت کو بلفظ «شغف حب» تعبیر کیا ہے۔ یہ حرکت زلیخا سے حالت کفر میں صادر ہوئی تھی۔ ہنود میں بھی ظہور عشق عورتوں کی طرف سے ہوتا ہے۔ بخلاف عرب کے کہ وہاں مرد عشاق زن ہوتے ہیں۔ جس طرح کہ قیس لیلیٰ پر فریفتہ تھا۔ اس سے بدتر عشق اہل فرس کا ہے کہ وہ امرد پر شیفتہ ہوتے ہیں۔ یہ ایک قسم لواط اور اغلام کی ہے۔ جس طرح کہ عورت کی طرف سے عشق کا ظہور ایک مقدمہ زنا ہے۔ جو کوئی اس مرض کا مریض ہوتا ہے وہ شرابی زانی ہو جاتا ہے۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ عشق بندے کو توحید سے روک کر گرفتار شرک و بت پرستی کر دیتا ہے۔ اس لیے کہ عاشق، معشوق کا بندہ ہو جاتا ہے اس کی رضامندی کو خالق کی رضامندی پر مقدم رکھتا ہے۔ یہی اس کی صنم پرستی ہے۔ کتاب اغاثۃ اللھفان وکتاب الدواءالکافی اور دیگر رسائل میں آفات و مصائب کو تفصیل وار لکھا ہے اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس شرک شیرین و کفر نمکین سے بچا کر اپنی محبت بخشے اور مجاز سے حقیقت کی طرف لائے۔ حدیث میں آیا ہے «حبك الشي يعمي ويصم» یعنی کسی چیز کی محبت تجھ کو اندھا بہرا بنا دیتی ہے۔
راقم الحروف کہتا ہے کہ یہی حال مقلدین جامدین کا ہے جن کا طور طریقہ بالکل ان لوگوں کے مطابق ہے۔ جن کا حال اللہ پاک نے یوں بیان فرمایا ہے: «اتخذوا احبارهم و رهبانهم اربابا من دون الله»[التوبه: 31] انھوں نے اپنے علماء و مشائخ کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے۔ ائمہ مجتہدین کا احترام اپنی جگہ پر ہے مگر ان کے ہر فتویٰ ہر ارشاد کو وحی آسمانی کا درجہ دینا کسی طرح بھی مناسب نہیں کہا جا سکتا۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو افراط و تفریط سے بچائے۔ آمین
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 21
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6041
6041. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”کوئی شخص ایمان کی مٹھاس اس وقت تم نہیں پا سکتا جب تک وہ اگر کسی سے محبت کرتا ہے تو صرف اللہ کے لیے اس سے محبت نہ کرے۔ اور حتیٰ کہ اس کو آگ میں ڈالا جانا اس سے زیادہ محبوب ہو کہ وہ کفر کی طرف لوٹ کر جائے جبکہ اللہ تعالٰی نے اسے آگ سے نکال دیا ہے اور حتٰی کہ اللہ اور اس کا رسول ان دونوں کے ماسوا سے اسے زیادہ محبوب ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6041]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے مقلدین جامدین کو نصیحت لینی چاہیئے جب تک اللہ اور رسول کی محبت تمام جہانوں کے لوگوں سے زیادہ نہ ہو۔ ایمان پورا نہیں ہو سکتا۔ اللہ اور رسول کی محبت تمام جہان سے زیادہ ہونی چاہیئے۔ وہ یہ کہ اللہ اور اس کے رسول کے ارشاد پر جان ومال قربان کرے، جہاں قرآن کی آیت یا حدیث صحیح مل جائے، بس اب کسی امام یا مجتہد کا قول نہ ڈھونڈے۔ اللہ اور رسول کے ارشاد کوسب پر مقدم رکھے۔ تب جا کر ایمان کامل حاصل ہوگا۔ اللھم ارزقنا۔ آمین حتی یکون اللہ ورسوله الخ معناہ ان من استکمل الإیمان علم أن حق اللہ ورسوله أکد علیه من حق أبیه وأمه وولدہ وجمیع الناس الخ (فتح الباری) اللہ ورسول کی محبت کامطلب یہ ہے کہ جس نے ایمان کامل کر لیا وہ جان گیا کہ اللہ اور رسول کی محبت کا حق اس کے ذمہ اس کے باپ اور ماں اور اولاد اوربیوی اورسب لوگوں کے حقوق سے بہت ہی زیادہ بڑھ کر ہے اوراللہ ورسول کی محبت کی علامت یہ ہے کہ شریعت اسلامی کی حمایت کی جائے اور اس کی مخالفت کرنے والوں کو جواب دیا جائے اور اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ جیسے اخلاق پیدا کئے جائیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6041
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6941
6941. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تین خصلیتیں ایسی ہیں جس میں وہ پائی جائیں وہ ایمان کی مٹھاس (اور لذت) چکھ لیتا ہے: اللہ اور اس کے رسول، اسے سب ست زیادہ پیارے اور محبوب ہوں۔ دوسرے یہ کہ وہ کسی سے محبت صرف اللہ کے لیے کرے۔ تیسرے یہ کہ اسے کفر میں لوٹ جانا اتنا برا لگے جیسے وہ آگ میں ڈالے جانے کو برا خیال کرتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6941]
حدیث حاشیہ: اس سے باب کا مطلب یوں نکلا کہ قتل اورضرب سب اس سے آسان ہے کہ آدمی آگ میں جلایا جائے وہ مارپیٹ یا ذلت یا قتل کو آسان سمجھے گا لیکن کفر گوارا نہ کرےگا۔ بعضوں نے کہا کہ قتل کا جب ڈر ہو تو کلمہ کفر منہ سےنکال دینا اور جان بچانا بہتر ہے مگر صحیح یہی ہےکہ صبر بہترہے جیسا کہ حضرت بلال کےواقعہ سےظاہر ہے باقی تقیہ کرنا اس وقت ہماری شریعت میں جائز ہے جب آدمی اپنی جان یامال جانے کا ڈر ہو پھر بھی تقیہ نہ کرے توبہیر ہے۔ رافضیوں کا تقیہ بزدلی اور بے شرمی کی بات ہے وہ تقیہ کو جا و بے جا اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں۔ إنا للہ
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6941
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4991
´ایمان کی مٹھاس کا بیان۔` انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین چیزیں جس میں ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس پائے گا، ایک یہ کہ جو کسی آدمی سے محبت کرے تو صرف اللہ کے لیے کرے، دوسرے یہ کہ اس کے نزدیک اللہ اور اس کے رسول ہر ایک سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہوں اور تیسرے یہ کہ آگ میں گرنا اس کے لیے زیادہ محبوب ہو بہ نسبت اس کے کہ وہ کفر کی طرف لوٹے جب کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس سے نجات دے دی۔“[سنن نسائي/كتاب الإيمان وشرائعه/حدیث: 4991]
اردو حاشہ: ”ایمان کی مٹھاس“ مطلب یہ ہے کہ ایمان میٹھی چیز کی طرح لذیذ ہے۔ میٹھے میں لذت محسوس کرنا انسان کی فطرت ہے۔ اسی طرح جو شخص صحیح فطرت انسانی پر قائم ہو، وہ ایمان میں لذت محسوس کرےگا۔ تفصیل بیان ہوچکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4991
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4992
´اسلام کی مٹھاس کا بیان۔` انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین چیزیں جس میں پائی جائیں گی وہ اسلام کی مٹھاس پائے گا، ایک یہ کہ جس کے نزدیک اللہ اور اس کے رسول سب سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہوں۔ دوسرے یہ کہ جو آدمی صرف اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرے، تیسرے یہ کہ کفر کی طرف لوٹنا اس طرح ناپسند کرے جس طرح آگ میں گرنا ناپسند کرتا ہے۔“[سنن نسائي/كتاب الإيمان وشرائعه/حدیث: 4992]
اردو حاشہ: ایمان کی تشریح میں بیان ہو چکا ہے کہ شرعا اسلام وایمان میں کوئی فرق نہیں۔ یہ حدیث بھی اس کی تائید کرتی ہے۔ سابقہ حدیث میں جن اوصاف کو ایمان کی مٹھاس کا دارومدار قرار دیا گیا ہے، اس روایت میں انھی اوصاف کواسلام کی مٹھاس کا سبب بتلایا کیا ہے، گویا ایمان واسلام ایک ہی چیز ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4992
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:16
16. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہو جائیں اس نے ایمان کی شیرینی کو پا لیا۔ ایک یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں اور جس شخص سے بھی محبت رکھے محض اللہ کے لیے محبت رکھے اور وہ کفر میں لوٹ جانے کو ایسا برا خیال کرے جیسا کہ آگ میں گرائے جانے کو برا سمجھتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:16]
حدیث حاشیہ: 1۔ حلاوت ایمان کی صورت یہ ہے کہ عبادت اور نیکی میں لذت اورسرورآئے، دینی معاملات میں مشقت برداشت کرنا آسان ہوجائے اور اموردین کو دنیاوی سازوسامان پر ترجیح دے۔ (فتح الباري: 85/1) 2۔ اس حدیث میں ایمان کے لیے لفظ حلاوت بطور استعارہ استعمال فرما کر مومن کی ایمانی کیفیت کو میٹھی چیز سے تشبیہ دی ہے جیسا کہ شہد ہوتا ہے، اس میں مٹھاس اور اندرونی امراض کا علاج بھی ہے، اسی طرح ایمان میں لذت بھی ہے اور شفا بھی۔ جب ایمان کے لیے حلاوت ثابت ہوگئی تو ظاہر ہے کہ مٹھاس کسی کو کم اور کسی کو زیادہ محسوس ہوتی ہے، صفراوی مریض کومٹھاس کا احساس کم ہوتا ہے بلکہ اسے میٹھی چیز کڑوی محسوس ہوتی ہے۔ اور اس کے مقابلے میں تندرست کو مٹھاس کی لذت کا ادراک ہوگا۔ اسی طرح اگر کسی کو ایمان میں حلاوت کا احساس نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معاصی کا صفراء اس کے مزاج پر غالب آچکا ہے۔ بس اس لذت کی کمی بیشی سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایمان کی کمی بیشی اور ایمان پر اعمال کے اثر انداز ہونے کو ثابت کیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کا استدلال نہایت واضح اور قوی ہے۔ (فتح الباري: 84/1) 3۔ اس حدیث میں تین چیزیں بیان ہوئی ہیں: پہلے اللہ کی محبت، وہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ منعم حقیقی ہے اور اس کے رسول کی محبت، وہ اس بنا پر کہ اللہ کے رسول محسن حقیقی ہیں۔ جب اللہ اور اس کے رسول کو محبت کا یہ درجہ حاصل ہوگیا تودوسری چیز یہ ہے کہ مخلوقات میں جس سے محبت ہو وہ لوجہ اللہ ہو۔ اس میں ضرررسانی کے جذبات یکسر ختم ہوجائیں۔ جب انسان اس درجے تک پہنچ جائے تو اسے محبوب کی ناپسندیدہ باتوں سے انتہائی نفرت ہونی چاہیے۔ تیسری چیز یہ ہے کہ اسے کفر سے اس قدر نفرت ہو کہ اس کے لیے آگ میں گرنا کفر اختیار کرنے سے آسان ہو۔ 4۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان صرف ان پانچ چیزوں میں منحصر نہیں جو پہلے بیان ہوئی ہیں بلکہ اس کی تکمیل کے لیے ان چیزوں کو اختیار کرنا ہو گا جو اس حدیث میں بیان ہوئی ہیں۔ یہ بھی ایک مستقل شعبہ ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مومن کو حلاوت ایمان پیدا کرنے کے لیے ان خصائل کو اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے جو اس حدیث میں مذکورہ ہیں۔ اس حدیث میں اشارہ ہے کہ نیکیوں سے خود کو آراستہ کرنا اور برائیوں سے دوررہنا تکمیل ایمان کے لیے ضروری ہے۔ (شرح الکرماني: 101/1) 5۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ”اس شخص (کی فضیلت) کا بیان جس نے مار پیٹ، قتل اور ذلت ورسوائی کو کفر پر ترجیح دی۔ “(صحیح البخاری، الإکراہ، حدیث: 6941) اگرچہ ایمان ایسی چیز نہیں جسے زبان سے چکھا جاسکے تاہم اس میں غیر مرئی مٹھاس اور لذت ہوتی ہے اور یہ اس شخص کو محسوس ہوتی ہے جو حدیث میں مذکور میعار پر پوراُتر آتا ہے۔ بعض اوقات تو یہ چاشنی اس حد تک محسوس ہوتی ہے کہ بندہ مومن ایمان پر اپنی جان قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہو جاتا ہے۔ اس کی علامت یہ ہے کہ اسے نیکی اور اطاعت کے کاموں میں لذت وفرحت محسوس ہوتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 16
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:21
21. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپؐ نے فرمایا: ”جس شخص میں تین خصلتیں ہوں گی وہ ایمان کی شیرینی پا لے گا: جس شخص کو اللہ اور اس کا رسول پوری دنیا سے زیادہ محبوب ہوں اور جو شخص کسی بندے سے محبت کرے تو صرف اللہ کے لیے کرے اور جو شخص کفر سے نکلنے کے بعد کفر کی طرف لوٹنے کو اس طرح برا سمجھے گویا اسے آگ میں ڈالا جا رہا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:21]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث سے بھی مرجیہ کی تردید مقصود ہے۔ ان کے موقف کا حاصل یہ ہے کہ تصدیق کے بعد کسی قسم کی اطاعت کی ضرورت نہیں اور نہ معصیت اس کے لیے نقصان دہ ہے۔ ان کی تردید بایں طورہے کہ ایمان کو طاقت کی ضرورت ہے اور اس کی حلاوت بھی مطلوب ہے۔ یہ دونوں، اعمال کے راستے سے حاصل ہوتی ہیں۔ جب اعمال میں تفاوت ہوگا تو مراتب حلاوت وطاقت میں بھی اسی نسبت سے تفاوت ہوگا۔ جب ایمان کی طاقت وحلاوت کامدار اعمال ہیں تو یقیناً ان کا ترک ایمان کو بے لطف اور کمزور کردے گا کیونکہ جس چیز میں لذت نہیں ہوتی اس کی طرف رغبت بھی کم ہوتی ہے اور بے رغبتی کا عمل بے جان ہوتا ہے۔ اگر عمل بے جان ہے تو اس کا اثر ایمان کی طاقت پر پڑے گا اور یہ کھلا ضرر ہے۔ 2۔ کفر سے نکلنے کے بعد کفر کی طرف لوٹنے کی دوصورتیں ہیں: (الف) پہلے مسلمان نہ تھا اب اسلام میں داخل ہوا تو اسے آگ میں ڈالے جانے کی طرح کفر کی طرف لوٹنا برا محسوس ہو۔ (ب) پہلے سے مسلمان تھا لیکن اب اعمال اس قدر مزیدار معلوم ہوتے ہیں کہ کفر کے خیال سے بھی بھاگتا ہے۔ 3۔ حلاوت ایمان کے متعلق ایک اور حدیث اسی معنی میں مروی ہے: "ذَاقَ طَعْمَ الإِيمَانِ، مَنْ رَضِيَ بِالله رَبًّا، وَبِالإِسْلامَ دِيناً، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولاً" ”اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو اللہ سے ازروئے رب ہونے کے راضی ہوگیا، جس نے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کرلیا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بحیثیت رسول کے مان لیا۔ “(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث 151(34) واضح رہے کہ یہ نعمت اس خوش نصیب کو ملتی ہے جس کے ایمان نے اس کے یقین کو طاقتور کردیا ہو اور اس کا نفس مطمئن ہوگیا ہو، اس کا سینہ کھل گیا ہو اور ایمان ویقین اس کے گوشت پوست اورخون میں داخل ہوگیا ہو۔ اس قسم کے باکمال خوش نصیب حلاوت ایمانی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 21
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6041
6041. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”کوئی شخص ایمان کی مٹھاس اس وقت تم نہیں پا سکتا جب تک وہ اگر کسی سے محبت کرتا ہے تو صرف اللہ کے لیے اس سے محبت نہ کرے۔ اور حتیٰ کہ اس کو آگ میں ڈالا جانا اس سے زیادہ محبوب ہو کہ وہ کفر کی طرف لوٹ کر جائے جبکہ اللہ تعالٰی نے اسے آگ سے نکال دیا ہے اور حتٰی کہ اللہ اور اس کا رسول ان دونوں کے ماسوا سے اسے زیادہ محبوب ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6041]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں ایمان کو شہد سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ ایمان اور شہد میں میلان قلب زیادہ پایا جاتا ہے، پھر شہد کی خصوصیت ”شیرینی“ کو ایمان کی طرف منسوب کر کے حلاوۃ الایمان، یعنی ایمان کی مٹھاس فرمایا۔ (2) اللہ اور اس کے رسول سے محبت کا مطلب یہ ہے کہ جس نے ایمان مکمل کر لیا اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی علامت یہ نہے کہ شریعت اسلامی کی حمایت کی جائے، اس کی مخالفت کرنے والوں کو دندان شکن جواب دیا جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت وسیرت کو اپنانے کی پوری پوری کوشش کی جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6041
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6941
6941. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تین خصلیتیں ایسی ہیں جس میں وہ پائی جائیں وہ ایمان کی مٹھاس (اور لذت) چکھ لیتا ہے: اللہ اور اس کے رسول، اسے سب ست زیادہ پیارے اور محبوب ہوں۔ دوسرے یہ کہ وہ کسی سے محبت صرف اللہ کے لیے کرے۔ تیسرے یہ کہ اسے کفر میں لوٹ جانا اتنا برا لگے جیسے وہ آگ میں ڈالے جانے کو برا خیال کرتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6941]
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت میں ہے کہ جب اس کو اللہ تعالیٰ نے کفر سے نجات دے دی ہے تو کفر کو دوبارہ اختیار کرنے کی نسبت آگ میں چھلانگ لگانے کو زیادہ پسندکرے۔ (صحیح البخاري، الأدب حدیث 6041) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پیش کردہ حدیث میں اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس کا ہم نے اوپر حوالہ دیا ہے یعنی وہ بندہ مومن آگ میں کود پڑنے کى تکلیف کو زیادہ ترجیح دے گا لیکن کفر کو اختیار نہیں کرے گا۔ 2۔ اگرچہ جبر و اکراہ کے وقت کفریہ کام یا کفریہ بات کرنے کی رخصت ہے لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے کردار سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے رخصت پر عمل کرنے کے بجائے عزیمت کو اختیار کیا اور کفار کے مصائب وآلام کو خندہ پیشانی سے قبول کیا لیکن کلمہ کفر کہہ کر اہل کفر کا کلیجہ ٹھنڈا نہیں کیا۔ 3۔ قرآن کریم میں اصحاب الاخدود اورحدیث مبارکہ میں غلام کا واقعہ بیان ہوا ہے، انھوں نے بھی اسی قسم کی مستقل مزاجی کا مظاہرہ کیا تھا۔ ان حضرات نے ہمارے لیے درج ذیل نمونہ چھوڑا ہے: ”جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے،پھر اس پر ڈٹ گئے،ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ تم ڈرو اور نہ غمگین ہی ہواور اس جنت کی خوشی مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں تمھیں وہی کچھ ملے گا جو تمہارا جی چاہے گا اور جو کچھ مانگو گے تمہارا ہوگا۔ یہ بے حد بخشنے والے نہایت مہربان کی طرف سے تمہاری مہمانی ہوگی۔ “(حٰم السجدة: 30/41، 32)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6941