ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور خطبہ دیتے ہوئے لوگوں سے فرمایا: ”اللہ کی قسم، لوگو! مجھے تمہارے متعلق کسی بات کا خوف نہیں، ہاں صرف اس بات کا ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دنیاوی مال و دولت سے نوازے گا“، ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا خیر (مال و دولت) سے شر پیدا ہوتا ہے؟ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے، پھر قدرے سکوت کے بعد فرمایا: ”تم نے کیسے کہا تھا“؟ میں نے عرض کیا: کیا خیر (یعنی مال و دولت کی زیادتی) سے شر پیدا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خیر سے تو خیر ہی پیدا ہوتا ہے، اور کیا وہ مال خیر ہے؟ ہر وہ سبزہ جسے موسم بہار اگاتا ہے، جانور کا پیٹ پھلا کر بدہضمی سے مار ڈالتا ہے، یا مرنے کے قریب کر دیتا ہے، مگر اس جانور کو جو گھاس کھائے یہاں تک کہ جب پیٹ پھول کر اس کے دونوں پہلو تن جائیں تو دھوپ میں چل پھر کر، پاخانہ پیشاب کرے، اور جگالی کر کے ہضم کر لے، اور واپس آ کر پھر کھائے، تو اسی طرح جو شخص مال کو جائز طریقے سے حاصل کرے گا، تو اس کے مال میں برکت ہو گی، اور جو اسے ناجائز طور پر حاصل کرے گا، تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی کھاتا رہے اور آسودہ نہ ہو“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3995]
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3995
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مال ودولت کی حرص انسان کے دین کے لیے خطرناک ہے (2) مال اللہ کی نعمت ہے اس لیے حلال طریقے سے حاصل کرنا منع نہیں۔
(3) حلال کمائی سے حاصل ہونے والا مال بھی خرچ نہ کرنا سمیٹ سمیٹ کر رکھنا نقصان دہ ہے۔
(4) گھاس اور سبزہ جانور کے لیے مفید ہے بشرطیکہ پہلا کھایا ہوا ہضم ہونے كے بعد اور کھائے۔ اگر مسلسل کھاتا جائے گا تو نقصان اٹھائے گا۔ اسی طرح مال مفید چیز ہے بشرطیکہ اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ بھی کیا جائے۔
(5) مثال دے کر سمجھانے سے بات زیادہ اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3995