عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام اجنبی حالت میں شروع ہوا، عنقریب پھر اجنبی بن جائے گا، لہٰذا ایسے وقت میں اس پر قائم رہنے والے اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہے، آپ سے سوال کیا گیا: غرباء کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ لوگ ہیں جو اپنے قبیلے سے نکال دئیے گئے ہوں“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3988]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الإیمان 13 (2629)، (تحفة الأشراف: 9510)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/398)، سنن الدارمی/الرقاق 42 (2797) (صحیح)» «قال قيل ومن الغرباء قال النزاع من القبائل» کا ٹکڑا یعنی غرباء کی تعریف ضعیف ہے، تراجع الألبانی: رقم: 175)
وضاحت: ۱؎: یعنی مسافر، پردیسی جن کا کوئی دوست اور مددگار نہ ہو، شروع میں اسلام ایسے ہی لوگوں نے اختیار کیا تھا جیسے بلال، صہیب، سلمان، مقداد، ابوذر رضی اللہ عنہم وغیرہ اور قریشی مہاجر بھی اجنبی ہو گئے تھے اس لئے کہ قریش نے ان کو مکہ سے نکال دیا تھا، تو وہ مدینہ میں اجنبی تھے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قال قيل
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سفيان بن وكيع ضعيف حفص بن غياث و سليمان الأعمش و أبو إسحاق مدلسون و لم أجد تصريح سماعھم والحديث السابق (الأصل: 3986) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 518