ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوذر! اس وقت تمہاری کیا حالت ہو گی جس وقت لوگوں پر موت کی وبا آئے گی یہاں تک کہ ایک گھر یعنی قبر کی قیمت ایک غلام کے برابر ہو گی ۱؎، میں نے عرض کیا: جو اللہ اور اس کا رسول میرے لیے پسند فرمائیں (یا یوں کہا: اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس وقت تم صبر سے کام لینا“، پھر فرمایا: ”اس وقت تم کیا کرو گے جب لوگ قحط اور بھوک کی مصیبت سے دو چار ہوں گے، حتیٰ کہ تم اپنی مسجد میں آؤ گے، پھر تم میں اپنے بستر تک جانے کی قوت نہ ہو گی اور نہ ہی بستر سے اٹھ کر مسجد تک آنے کی قوت ہو گی، میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، یا کہا (اللہ اور اس کا رسول جو میرے لیے پسند کرے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اس وقت) تم اپنے اوپر پاک دامنی کو لازم کر لینا“، پھر فرمایا: ”تم اس وقت کیا کرو گے جب (مدینہ میں) لوگوں کا قتل عام ہو گا، حتیٰ کہ مدینہ میں ایک پتھریلا مقام «حجارة الزيت»۲؎ خون میں ڈوب جائے گا“، میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول جو میرے لیے پسند فرمائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان لوگوں سے مل جانا جن سے تم ہو“(یعنی اپنے اہل خاندان کے ساتھ ہو جانا) ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: ”اللہ کے رسول! کیا میں اپنی تلوار لے کر ان لوگوں کو نہ ماروں جو ایسا کریں؟“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم ایسا کرو گے تب تو تم بھی انہیں لوگوں میں شریک ہو جاؤ گے، تمہیں چاہیئے کہ (چپ چاپ ہو کر) اپنے گھر ہی میں پڑے رہو“۳؎ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر وہ میرے گھر میں گھس آئیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہیں ڈر ہو کہ تلوار کی چمک تم پر غالب آ جائے گی، تو اپنی چادر کا کنارا منہ پر ڈال لینا، (قتل ہو جانا) وہ قتل کرنے والا اپنا اور تمہارا دونوں کا گناہ اپنے سر لے گا، اور وہ جہنمی ہو گا“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3958]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفة الأشراف: 11947، ومصباح الزجاجة: 1390)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الفتن 2 (4261)، بدون ذکر الجوع و العفة، مسند احمد (5/149، 163) (صحیح) (ملا حظہ ہو: الإرواء: 2451)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ایک قبر کی جگہ کے لیے ایک غلام دینا پڑے گا یا ایک قبر کھودنے کے لیے ایک غلام کی قیمت ادا کرنی پڑے گی یا گھر اتنے خالی ہو جائیں گے کہ ہر غلام کو ایک ایک گھر مل جائے گا۔ ۲؎: «حجارة الزيت» مدینہ میں ایک جگہ کا نام ہے۔ ۳؎: یعنی اپنے گھر میں بیٹھے رہنا۔
كيف أنت إذا أصاب الناس موت يكون البيت فيه بالوصيف قلت الله ورسوله أعلم أو قال ما خار الله لي ورسوله قال عليك بالصبر كيف أنت إذا رأيت أحجار الزيت قد غرقت بالدم قلت ما خار الله لي ورسوله قال عليك بمن أنت منه قلت يا رسول الله أفلا آخذ سيفي وأضعه على عاتقي قا
كيف أنت وموتا يصيب الناس حتى يقوم البيت بالوصيف قلت ما خار الله لي ورسوله أو قال الله ورسوله أعلم قال تصبر كيف أنت وجوعا يصيب الناس حتى تأتي مسجدك فلا تستطيع أن ترجع إلى فراشك ولا تستطيع أن تقوم من فراشك إلى مسجدك قال قلت الله ورسوله أعلم أو ما خار الله ل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3958
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مشکل حالات میں صبر بہترین طرز عمل ہے۔
(2) قحط اور بھوک کے زمانے میں چوری ڈاکے سے پرہیز کرنا بہت بہادری کا کام ہے۔
(3) قتل وغارت کے زمانے میں جب عام لوگ حق وباطل کی پہچان چھوڑ کر محض فساد پھیلانے کے لیے حق کی حمایت کا بہانہ بناکر قتل وغارت کرنے لگیں تو تمام فریقوں سے الگ تھلگ رہنا بہتر ہے۔
(4) عام فساد کے زمانے میں کسی ایک فسادی کو قتل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ غلط فہمیاں دور کرنے اور امن قائم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
(5) اس قسم کے حالات میں جب مسلمان باہم دست وگریباں ہوں، سب سے کنارہ کش ہوکر بیٹھنا بہتر ہے اگر اس حالت میں بھی کوئی فسادی ایسے امن پسند شہری کو قتل کردے تو وہ شہید ہے۔
(6) قبر کی قیمت غلام کے برابر ہوجائے گی کا مطلب ہے اس کثرت سے موتیں ہوں گی کہ دو گز زمین کا ملنا مشکل ہوجائےگا اور قبر کے لیے اتنی سی جگہ ایک گھر کی قیمت کے برابر ہوجائے گی یا قبر کھودنے والے اتنے کمیاب ہوجائیں گے کہ ان کی اجرت ایک گھر کی قیمت کے برابر ہوجائے گی۔ ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ کثرت اموات کے باعث گھر رہنے والوں سے خالی ہوجائیں گے اوران کی قیمتیں اتنی گرجائیں گی کہ ایک غلام کی قیمت کے برابر ہوجائیں گی جب کہ عام حالات میں مکان کی قیمت ایک غلام کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3958
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4409
´کفن چور کے ہاتھ کاٹنے کا بیان۔` ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوذر!“ میں نے کہا: حاضر ہوں، اور حکم بجا لانے کے لیے تیار ہوں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب لوگوں کو موت پہنچے گی اور گھر یعنی قبر ایک خادم کے بدلہ میں خریدی جائیگی؟“ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ معلوم ہے، یا جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صبر کو لازم پکڑنا“ یا فرمایا: ”اس دن صبر کرنا۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: حماد بن ابی سلیمان کہتے ہیں: کفن چور کا ہاتھ کا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4409]
فوائد ومسائل: 1) فی الواقع اب شہری گنجان آبادیوں میں میت کے لئے قبر کا حصول غریب آدمی کے بس سے باہر ہو رہا ہے اور ایام فتن میں یہ مسئلہ اوربھی سنگین ہوجائے گا اور یہ پیش گویاں رسول اللہﷺ کی صداقت اور رسالت کی دلیل ہیں۔
2) کفن چور کی حد اس کا ہاتھ کاٹنا ہے، کیونکہ رسول اللہﷺ نے قبر کےلیے گھر کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4409