ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے «لا حول ولا قوة إلا بالله»”گناہوں سے دوری اور عبادات و طاعت کی قوت صرف اللہ رب العزت کی طرف سے ہے“ پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا: ”عبداللہ بن قیس! کیا میں تمہیں وہ کلمہ نہ بتلاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک حزانہ ہے“؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، ضرور بتائیے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم «لا حول ولا قوة إلا بالله» کہا کرو“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3824]
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3824
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) یہ جملہ اللہ کے ذکر میں اہم جملہ ہےکیو نکہ اس میں اس بات کا اقرار ہےکہ ہر قوت کا سرچشمہ اللہ کی ذات ہے۔
(2) اس میں اللہ تعالیٰ پر اعتماد و توکل کے ساتھ ساتھ اس کے سامنے عاجزی اورمسکینی کا اظہار ہے، اور عبودیت کا یہ اظہار اللہ تعالٰی کو پسند ہے۔
(3) نیکی کا کام انجام دے کر یا گناہ سے اجتناب کر کے دل میں فخر کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ”نیکی برباد گناہ لازم“ کی کیفیت پیش آ سکتی ہے، اس سے بچاؤ کے لیے اس بات کی یاد دہانی کی ضرورت ہے کہ یہ سب میری کوشش اور بہادری سے نہیں بلکہ محض اللہ کی توفیق اور اس کے احسان سے ہے۔
(4) اس سوچ کے ساتھ یہ الفاظ پڑھنے سےیقینا جنت کی عظیم نعمتیں اور بلند درجات حاصل ہوں گے، اس لیے اسے ”جنت کا خزانہ“ قرار دیا گیا ہے۔
(5) اللہ کا ذکر سری طور پر کرنا بہتر ہے کیونکہ اس میں ریا کاری نہیں ہوتی، البتہ جن مقامات پر ذکر بلند آواز کرنا مسنون ہے، وہاں بلند آواز ہی سے کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3824
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1341
´ذکر اور دعا کا بیان` سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب ہو کر کہا ” اے عبداللہ بن قیس! کیا میں تجھے جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتاؤں؟ جو یہ ہے «لا حول ولا قوة إلا بالله» کہ برائی سے منہ موڑنا اور نیکی پر زور سوائے اللہ کی مدد کے ممکن نہیں ہے۔“(بخاری و مسلم) اور نسائی میں اتنا اضافہ ہے «ولا ملجأ من الله إلا إليه» کہ ” اللہ کے سوا کہیں پناہ نہیں۔“ «بلوغ المرام/حدیث: 1341»
تخریج: «أخرجه البخاري، الدعوات، باب الدعاء إذا علا عقبة، حديث:6384، ومسلم، الذكر والدعاء، باب استحباب خفض الصوت بالذكر...، حديث:2704، والنسائي في الكبرٰي:6 /97، حديث:10190.»
تشریح: اس حدیث میں بھی لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ کی فضیلت کا بیان ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ چیز جس قدر نفیس اور قیمتی ہوتی ہے اس کی حفاظت اور دیکھ بھال بھی اسی طرح بہت اہتمام سے کی جاتی ہے۔ اسے چھپا کر رکھا جاتا ہے۔ اور یہ کلمات تو جنت کا خزانہ ہیں‘ اس لیے ان کی بھی محافظت کرنی چاہیے اور انھیں کثرت سے پڑھنا چاہیے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1341
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3374
´دعا سے متعلق ایک اور باب۔` ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے جب ہم لوٹے اور ہمیں مدینہ دکھائی دینے لگا تو لوگوں نے تکبیر کہی اور بلند آواز سے تکبیر کہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا رب بہرہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ غائب و غیر حاضر ہے، وہ تمہارے درمیان موجود ہے، وہ تمہارے کجاؤں اور سواریوں کے درمیان (یعنی بہت قریب) ہے پھر آپ نے فرمایا: ”عبداللہ بن قیس! کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتاؤں؟ «لا حول ولا قوة إلا بالله»(جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے)۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3374]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی: جو اس کلمے کا ورد کرے گا وہ جنت کے خزانوں میں ایک خزانے کا مالک ہو جائے گا، کیونکہ اس کلمے کا مطلب ہے ”برائی سے پھرنے اور نیکی کی قوت اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں“۔ جب بندہ اس کا بار باراظہار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بے انتہا خوش ہوتا ہے، بندے کی طرف سے اس طرح کی عاجزی کا اظہار تو عبادت حاصل ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3374
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4205
4205. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم خیبر کی جنگ میں شریک تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کے متعلق، جو آپ کے ہمراہ تھا اور اسلام کا دعوے دار تھا، فرمایا: ”یہ شخص اہل جہنم سے ہے۔“ جب لڑائی شروع ہوئی تو وہ شخص بڑی پامردی سے لڑا اور اسے بہت زیادہ زخم آئے۔ قریب تھا کہ کچھ لوگ شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جاتے لیکن اس شخص کے لیے زخموں کی تکلیف ناقابل برداشت تھی، چنانچہ اس نے اپنے ترکش سے تیر نکالا اور اس سے اپنا سینہ چاک کر لیا۔ (یہ منظر دیکھ کر) کچھ مسلمان دوڑتے ہوئے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ تعالٰی نے آپ کی بات کو سچا کر دکھایا ہے۔ اس شخص نے تیر سے اپنے سینے کو زخمی کر کے خودکشی کر لی ہے۔ آپ ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا: ”اے فلاں! اٹھ کر اعلان کر دو کہ جنت میں ایمان دار کے علاوہ کوئی دوسرا داخل نہیں ہو گا۔ اور اللہ تعالٰی کسی بدکار آدمی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4205]
حدیث حاشیہ: طبرانی کی روایت میں ہے کہ جب آپ نے اس کو دوزخی فرمایا لوگوں کو بہت گراں گزرا۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! جب ایسی محنت اور کوشش کرنے والا دوزخی ہے تو پھر ہمارا حال کیا ہونا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ شخص دوزخی ہے اپنا نفاق چھپاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ ظاہری اعمال پر حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ جب تک اندرونی حالات کی درستگی نہ ہو۔ اللہ سب کو نفاق سے بچائے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ کا قول جو شبیب عن یونس کے طریق سے روایت کیا گیا ہے اصل یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ آنحضرت ﷺ کے پاس اس وقت آئے تھے جب جنگ خیبر ختم ہو چکی تھی۔ اس لیے شبیب اور معمر کی روایت میں جو خیبر کا لفظ ہے اس میں شبہ رہتا ہے تو امام بخاری ؒ نے شبیب اور ابن مبارک کی روایتوں سے یہ ثابت کیا کہ ان میں بجائے خیبر کے حنین کا لفظ مذکور ہے۔ صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں یہاں خیبر کا لفظ مذکور ہے بعض نے کہا وہی صحیح ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4205
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6409
6409. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ ایک گھاٹی یا درے میں داخل ہوئے جب ایک اور آدمی بھی اس پر چڑھا تو اس نے بآواز بلند لا إله إلا اللہ أکبر کہا: اس وقت رسول اللہ ﷺ اپنے خچر پر سوار تھے آپ نے فرمایا: ”تم لوگ کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”اے ابو موسیٰ عبداللہ بن قیس! کیا میں تمہیں ایک کلمہ نہ بتاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ہے؟“ میں نے کہا: ضرور بتائیں۔ آپ نے فرمایا: ” «لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ» ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6409]
حدیث حاشیہ: لاحولَ گناہوں سے بچنے کی طاقت نہیں ہے ولا قوة اور نہ نیکی کرنے کی طاقت ہے إلا باللہ مگر یہ کچھ محض اللہ کی مدد پر موقوف ہے۔ وہی انسان کے ہر حال کا مالک اور مختار ہے۔ اس کلمہ میں اللہ پاک کی عظمت وشان کا بیان ایک خاص اندازا سے کیا گیا ہے۔ اسی لئے یہ کلمہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے اسے جو بھی پڑھے گا اور دل میں جگہ دے گا وہ یقیناجنتی ہوگا۔ جعلنا اللہ منهم (آمین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6409
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6384
6384. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم ایک سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھے، جب کسی بلند جگہ پر چڑھتے تو بلند آواز سے اللہ اکبر کہتے: نبی ﷺ نے فرمایا: ”لوگو! اپنے آپ پر نرمی کرو، کیونکہ تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکا رہے بلکہ تم اس ذات کو پکار رہے ہو جو خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔“ اس کے بعد آپ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں اس وقت زیر لب کہہ رہا تھا۔ لاحولَ ولا قوةَ إلاباللہ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے عبداللہ بن قیس تم لاحولَ ولا قوةَ إلاباللہ۔ کا ورد کرو کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔“ یا آپ نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں ایک ایسا کلمہ نہ بتاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے؟ وہ لاحولَ ولا قوةَ إلاباللہ۔ ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6384]
حدیث حاشیہ: اس کلمہ میں سب کچھ اللہ ہی کے حوالہ کیا گیا ہے۔ لہٰذا جو شخص بھی اللہ پاک پر ایسا پختہ عقیدہ رکھے گا وہ یقینا جنتی ہوگا۔ مزید تفصیل آگے آ رہی ہے۔ دعا میں حد سے زیادہ چلانا بھی کوئی امر مستحسن نہیں ہے۔ ﴿ ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ﴾
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6384
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7386
7386. سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم ایک سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھے، جب ہم کسی پہاڑ کی بلندی پر چڑھتے تو بآواز بلند ”اللہ اکبر“ کہتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”لوگو! اپنے آپ پر رحم کھاؤ! تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے بلکہ تم سب کچھ سننے والے خوب دیکھنے والے اور بہت زیادہ قریب رہنے والے کو بلا رہے ہو۔“ پھر آپ ﷺ میرے پاس تشریف لائے جبکہ میں اپنے دل میں ”اَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ“ کہہ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: اے عبداللہ بن قیس! تم لا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ پڑھا کرو کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ یا آپ نے فرمایا: ”کیا میں تمہاری (جنت کے خزانے کی طرف) رہنمائی نہ کروں؟“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7386]
حدیث حاشیہ: تشریح: وہ یہی لا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ ہے۔ اللہ تعالیٰ غائب نہیں ہے۔ اس کا یہ معنی ہے کہ وہ ہر جگہ ہر چیز کو ہر آواز کو دیکھ اور سن رہا ہے۔ آواز کیا چیز ہے وہ تو دلوں تک کی بات جانتا ہے۔ یہ جو کہا کرتے ہیں اللہ ہر جگہ حاضر وناظر ہے اس کا بھی یہی معنی ہے کہ کوئی چیز اس کا علم اور سمع اور بصرہ سے پوشیدہ نہیں ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے جیسے جہمیہ ملاعنہ سمجھتے ہے کہ اللہ اپنی ذات قدسی صفات سے ہر مکان یا ہر جگہ میں موجود ہے‘ ذات مقدس تو اس کی بالائے عرش ہے مگر اس کا علم اور سمع اور بصر ہر جگہ ہے‘ حضور کا یہی معنی ہے۔ خود امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں اللہ آسمان پر ہے زمین میں نہیں ہے یعنی اس کی ذات مقدس بالائے آسمان اپنے عرش پر ہے اور دین کے کل اماموں کا یہی مذہب ہے جیسے اوپر بیان ہو چکا ہے۔ یہ کلمہ لا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ عجب پر اثر کلمہ ہے اللہ تعالیٰ نے اس کلمے میں یہ اثر رکھا ہے کہ جو کوئی اس کو ہمیشہ پڑھا کرے وہ ہر شر سے محفوظ رہتا ہے۔ ہمارے پیرو مرشد حضرت مجدد کا ختم روزانہ یہی تھا کہ سو سو بار اول وآخر درود شریف پڑھتے اور پانچ سو مرتبہ لا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ اور دنیا اور آخرت کے تمام مہمات اور مقاصد حاصل ہونے کے لیے یہ بارہ کلمے میں نے تجربہ کئے ہیں جو کوئی ان کو ہر وقت جب فرصت ہو بلا قید عدد پڑھتا رہے ان شاءاللہ تعالیٰ اس کی کل مرادیں پوری ہوں گی۔ ”سبحانَ اللہ وبحمدِہ سبحانَ اللہ العظیمِ۔ اَستغفرُ اللہ، لا اله الا اللہ لا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ یا رافع یا مُعِز یاغنی یا حی یا قیوم برحمتك أِستغیثُ یا أرحمَ الراحمین لا إله الا انت سبحانكَ إني کنتُ مِنَ الظلمینَ حسبنا اللہ ونعم والوکیل نعم المولیٰ ونعم النصیر۔ ایسا ہوا کہ ایک ملحد بے دین شخص اہل حدیث اور اہل علم کا بڑا دشمن تھا اور اس قدر طاقت ور ہو گیا تھا کہ اس کا کوئی مقابلہ نہ کر سکتا تھا۔ ہر شخص کو خصوصاً دین داروں کو اس کے شر سے اپنی عزت وآبرو سنبھالنا دشوار ہو گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انہی کلموں کے طفیل سے اس کا قلع قمع کر دیا اور اپنے بندوں کو راحت دی۔ جب اس کے فی النار والسقر ہونے کی خبر آئی تو دفعتاً یہ مادہ تاریخ دل میں گزرا: چونکہ بو جہل رفت ازدنیا گشتہ تاریخ او بما ذمہ رائے بیروں کن وبیگر حدیث مات فرعون ھذہ الامہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7386
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4205
4205. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم خیبر کی جنگ میں شریک تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کے متعلق، جو آپ کے ہمراہ تھا اور اسلام کا دعوے دار تھا، فرمایا: ”یہ شخص اہل جہنم سے ہے۔“ جب لڑائی شروع ہوئی تو وہ شخص بڑی پامردی سے لڑا اور اسے بہت زیادہ زخم آئے۔ قریب تھا کہ کچھ لوگ شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جاتے لیکن اس شخص کے لیے زخموں کی تکلیف ناقابل برداشت تھی، چنانچہ اس نے اپنے ترکش سے تیر نکالا اور اس سے اپنا سینہ چاک کر لیا۔ (یہ منظر دیکھ کر) کچھ مسلمان دوڑتے ہوئے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ تعالٰی نے آپ کی بات کو سچا کر دکھایا ہے۔ اس شخص نے تیر سے اپنے سینے کو زخمی کر کے خودکشی کر لی ہے۔ آپ ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا: ”اے فلاں! اٹھ کر اعلان کر دو کہ جنت میں ایمان دار کے علاوہ کوئی دوسرا داخل نہیں ہو گا۔ اور اللہ تعالٰی کسی بدکار آدمی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4205]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث سے ظاہر ہے کہ لوگوں کو اپنے اعمال پر غرور نہیں کرنا چاہیے اور کسی کے ظاہری حال سے اس کی آخرت کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ ظاہری اعمال پر حکم نہیں لگانا چاہیے جب تک اندرونی حالات کی درستی کاعلم نہ ہو۔ 2۔ اس حدیث سے یہ لازم نہیں آتا کہ جو کوئی خودکشی کرے اسے ضرور دوزخی کہا جائے گا بلکہ مراد یہ ہے کہ اس فعل کے سبب انسان سزا اور دوزخ کا مستحق ہوجاتا ہے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف کردے یا مذکورہ گناہ کی سزا پاکر بالآخر وہ جنت میں پہنچ جائے جیسا کہ عام گناہ گار اہل ایمان کے ساتھ معاملہ ہوگا۔ 3۔ طبرانی کی روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کو دوزخی قراردیا تولوگوں کو بہت گراں گزرا، انھوں نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! جب ایسی محنت اور کوشش کرنے والا انسان دوزخی ہے تو پھر ہمارا کیا حال ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ”بلاشبہ یہ دوزخی ہے اور اس نے اپنے نفاق کو چھپا رکھا تھا۔ “(المعجم الکبیر للطبرانی: 296/1، 297) 4۔ اس حدیث میں جس آدمی کا ذکر ہوا ہے اس سے ملتا جلتا واقعہ آگے آنے والی حضرت سہل بن سعد ؓ کی روایت میں ہے۔ اس میں اختلاف ہے کہ دونوں واقعات ایک شخص سے متعلق ہیں یا الگ الگ۔ بعض شارحین نے ان واقعات کو الگ الگ قراردیا ہے کیونکہ حضرت سہل بن سعد ؓ کی روایت میں ہے کہ اس نے تلوار کی دھار پر سینہ رکھ کر خود کشی کی جبکہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں ہے کہ اس نے تیر سے خود کو ہلاک کرڈالا، نیز سہل بن سعد ؓ کی روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کو اس واقعے کا علم ہواتو آپ نے بلال ؓ کو اعلان کرکے بھیجا جبکہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں خاتمے اور انجام کا بیان ہے۔ لیکن ہمارے رجحان کے مطابق ایک ہی واقعے کے مختلف پہلو بیان کیے گئے ہیں، نیز ممکن ہے کہ اس نے پہلے تیر سے کوشش کی ہو، پھر اس کے لیے تلوار استعمال کی ہو۔ امام بخاری ؒ کا رجحان بھی یہی ہے کہ دونوں واقعات ایک ہیں اور ان میں مختلف پہلوؤں کو بیان کیا گیا ہے۔ (فتح الباري: 589/7) واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4205
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6384
6384. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم ایک سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھے، جب کسی بلند جگہ پر چڑھتے تو بلند آواز سے اللہ اکبر کہتے: نبی ﷺ نے فرمایا: ”لوگو! اپنے آپ پر نرمی کرو، کیونکہ تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکا رہے بلکہ تم اس ذات کو پکار رہے ہو جو خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔“ اس کے بعد آپ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں اس وقت زیر لب کہہ رہا تھا۔ لاحولَ ولا قوةَ إلاباللہ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے عبداللہ بن قیس تم لاحولَ ولا قوةَ إلاباللہ۔ کا ورد کرو کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔“ یا آپ نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں ایک ایسا کلمہ نہ بتاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے؟ وہ لاحولَ ولا قوةَ إلاباللہ۔ ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6384]
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں ہے کہ لوگ جب کسی اونچے ٹیلے پر چرھتے تو بآواز الله أكبر، الله أكبر لا إله إلا الله، کہتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مذکورہ تنبیہ فرمائی۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4202) اس سلسلے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”تم اپنے پروردگار کو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے پکارو۔ بےشک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ “(الأعراف: 55/7)(2) بہرحال اللہ تعالیٰ کو پکارتے وقت عجز و انکسار اور نیاز مندی کا اظہار ہونا چاہیے، حد سے زیادہ چِلانا اچھا امر نہیں ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تنبیہ فرمائی۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6384
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6409
6409. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ ایک گھاٹی یا درے میں داخل ہوئے جب ایک اور آدمی بھی اس پر چڑھا تو اس نے بآواز بلند لا إله إلا اللہ أکبر کہا: اس وقت رسول اللہ ﷺ اپنے خچر پر سوار تھے آپ نے فرمایا: ”تم لوگ کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”اے ابو موسیٰ عبداللہ بن قیس! کیا میں تمہیں ایک کلمہ نہ بتاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ہے؟“ میں نے کہا: ضرور بتائیں۔ آپ نے فرمایا: ” «لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ» ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6409]
حدیث حاشیہ: (1) یہ غزوۂ خیبر کا واقعہ ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے پیچھے آہستہ آہستہ «لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ» پڑھ رہا تھا تو آپ نے مذکورہ ارشاد فرمایا۔ (2) واقعی اس کلمے میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و شان ایک خاص انداز سے بیان کی گئی ہے۔ اسے جنت کے خزانوں سے ایک خزانہ اس لیے کہا گیا ہے کہ اس کے پڑھنے سے آخرت میں بہت زیادہ منافع کی توقع ہے، گویا یہ کلمہ ہی بہت نفیس اور عمدہ خزانہ ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی ایک حدیث مروی ہے، انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں ایک کلمہ نہ بتاؤں جو عرش کے نیچے کا خزانہ ہے اور وہ «لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ» ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کلمہ کہنے والے میرے بندے نے میری اطاعت اختیار کر لی اور اس نے خود کو میرے حوالے کر دیا۔ “(المستدرك للحاکم: 71/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6409
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7386
7386. سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم ایک سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھے، جب ہم کسی پہاڑ کی بلندی پر چڑھتے تو بآواز بلند ”اللہ اکبر“ کہتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”لوگو! اپنے آپ پر رحم کھاؤ! تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے بلکہ تم سب کچھ سننے والے خوب دیکھنے والے اور بہت زیادہ قریب رہنے والے کو بلا رہے ہو۔“ پھر آپ ﷺ میرے پاس تشریف لائے جبکہ میں اپنے دل میں ”اَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ“ کہہ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: اے عبداللہ بن قیس! تم لا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ پڑھا کرو کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ یا آپ نے فرمایا: ”کیا میں تمہاری (جنت کے خزانے کی طرف) رہنمائی نہ کروں؟“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7386]
حدیث حاشیہ: 1۔ اللہ تعالیٰ غائب نہیں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر جگہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے اور ہرآواز کو سن رہا ہے۔ وہ اس قدر دور نہیں کہ اسے بآواز بلند پکارنے کی ضرورت پیش آئے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ”(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو (انھیں کہہ دو کہ) میں قریب ہوں۔ پکارنے والی کی دعا قبول کرتا ہوں وہ جب بھی مجھے پکارے۔ “(البقرہ: 186) آواز کیا چیز ہے وہ تو دل کی بات اور آنکھ کی خیانت کو جانتا ہے اسی لیے فرمایا: تم سب کچھ سننے والے دیکھنے والے اور انتہائی قریب رہنے والے کو پکارتے ہو۔ بندہ بھی ان صفات سے متصف ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ”ہم نے اسے (انسان کو) خوب سننے والا دیکھنے والا بنایا ہے۔ “(الدہر76۔ 2) لیکن بندے کے سمع اور بصر ناقص ہیں جو دور سے سن نہیں سکتا بلکہ قریب بھی اگر پردہ یا اوٹ حائل ہو تو اس کی سماعت و بصارت کام نہیں آتی لیکن اللہ تعالیٰ کامل پر ان صفات سے متصف ہے اس کی سمع سے کوئی حرکت فوت نہیں ہوتی خواہ وہ کتنی پوشیدہ ہو۔ وہ رات کے اندھیرے میں سفید پتھر پر چلنے والی چیونٹی کے قدموں کی آہٹ کو سنتا ہے بلکہ اس سے بھی مخفی چیزوں کو سنتا ہے۔ سانس کی آمدو رفت سے جو آواز پیدا ہوتی ہے وہ اسے بھی سنتا ہے جبکہ خود انسان اسے نہیں سن سکتا۔ اس کی بصر کائنات کی تمام حرکات و سکنات کو دیکھتی ہے۔ اتنا انسان کسی انسان کے قریب نہیں جتنا اللہ تعالیٰ اس کے قریب ہے: ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ”ہم تو اس کی شاہ رگ (رگ جان) سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔ “(ق: 50۔ 16) 2۔ واضح رہے کہ یہ قرب علم اور قدرت کے اعتبار سے ہے ورنہ ذات باری تعالیٰ مستوی علی العرش ہے۔ بعض جہلاء نے اس قسم کی آیات سے یہ فلسفہ کشید کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ بذات خود موجود ہے پھر انھوں نے وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود جیسی ناپاک اصطلاحات بنا ڈالیں۔ کچھ لوگوں نے ایک قدم آگے بڑھا دیا کہ حضرات ا نبیاء علیہم السلام خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی بلکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہر جگہ موجود ہیں اور لوگوں نے اپنے پیروں اور مرشدوں کے ہر جگہ ہونے کی صراحت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب باتوں سے پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حاضر و ناظر ہونے کے متعلق ہم آئندہ تفصیل سے بحث کریں گے۔ 3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کی مذکورہ صفات کے پیش نظر اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے فرمایا: تم اپنے آپ پر رحم کرو اور ترس کھاؤ۔ نعرہ تکبیرکہتے وقت اپنی آوازوں کو اس قدر اونچا کرنے کا تکلف نہ کرو۔ اس کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ جس ذات کی تم کبریائی اورتسبیح بیان کرتے ہو وہ سمیع اور بصیرہے۔ وہ اللہ پوشیدہ آواز کو بھی اسی طرح سنتا ہے جس طرح اونچی آواز کو سنتا ہے اور مخفی اشیاء کو اس طرح دیکھتا ہے جس طرح سر عام پڑی چیز کو دیکھتا ہے۔ اس پر زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 191/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7386