ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا: ”افسوس! تم نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی“، اس جملہ کو آپ نے کئی بار دہرایا، پھر فرمایا: ”تم میں سے اگر کوئی آدمی اپنے بھائی کی تعریف کرنا چاہے تو یہ کہے کہ میں ایسا سمجھتا ہوں، لیکن میں اللہ تعالیٰ کے اوپر کسی کو پاک نہیں کہہ سکتا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3744]
وضاحت: ۱؎: یعنی میں یہ نہیں جانتا کہ حقیقت میں اللہ کے نزدیک یہ کیسا ہے؟ میرے نزدیک تو اچھا ہے، حدیثوں کا یہی مطلب ہے کہ منہ پر کسی کی تعریف نہ کرے، یہ بھی اس وقت جب اس شخص کے غرور میں پڑ جانے کا اندیشہ ہو، ورنہ صحیحین کی کئی حدیثوں سے منہ پر تعریف کرنے کا جواز نکلتا ہے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احد پہاڑ سے فرمایا: تھم جا، تیرے اوپر کوئی نہیں ہے مگر نبی اور صدیق اور شہید اور اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ حاضر تھے، اور بعضوں نے کہا: کراہت اس وقت ہے جب مدح میں مبالغہ کرے اور جھوٹ کہے، اور بعضوں نے کہا اس وقت مکروہ ہے جب اس سے دنیاوی کام نکالنا منظور ہو، اور یہ تعریف غرض کے ساتھ ہو، «واللہ اعلم» ۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3744
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) انسان ظاہر کے مطابق رائے قائم کرتا ہے۔ دل کی حقیقت اور کیفیت سے صرف اللہ تعالیٰ باخبر ہے۔
(2) منہ پر تعریف کرنا منع ہے، تا ہم جس کی بابت یہ خطرہ نہ ہو کہ وہ تعریف سے کبر و غرور میں مبتلا ہو جائےگا، اس کی مناسب انداز سے تعریف کی جا سکتی ہے، جیسے نبی ﷺنے بعض دفعہ حضرت ابو بکر ؓ وغیرہ بعض صحابہ کی تعریف فرمائی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3744
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6061
6061. حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کی مجلس میں ایک آدمی کا ذکر آیا تو ایک دوسرے شخص نے اس کی خوب تعریف کی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: افسوس! تم نے اپنی ساتھی کی گردن توڑ ڈالی ہے۔۔۔ آپ ﷺ نے یہ جملہ کئی بار دہرایا۔۔۔۔ اگر کوئی اپنے ساتھی کی تعریف کرنا ہی چاہتا ہو تو یوں کہے: میں اس کے متعلق ایسا خیال کرتا ہوں (اور یہ بھی اس صورت میں) اگر وہ جانتا ہے کہ دوسرا شخص واقعی ایسا ہے اللہ تعالٰی اس کا محاسبہ کرنے والا ہے اللہ تعالٰی کے سامنے میں اس کی صفائی نہیں دیتا (کیونکہ وہ تو سب کو خوب جانتا ہے) وہیب نے خالد سے (ویحك کی بجائے) ویلك کے الفاظ بیان کئے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6061]
حدیث حاشیہ: لفظ ویحك کلمہ رحمت ہے اور ویلك کلمہ عذاب ہے، مطلب یہ ہوگا کہ جس کے لئے ویح بولا جائے تو معنی یہ ہوگا کہ افسوس تجھ پر اللہ رحم کرے اور جس پر لفظ ویلک بولیں گے تو معنی یہ ہوگا کہ افسوس اللہ تجھ پر عذاب کرے۔ تعریف میں، اسی طرح ہجو میں مبالغہ کرنا، بےہودہ شاعروں اور خوشامدی لوگوں کا کام ہے ایسی تعریف سے وہ شخص جس کی تعریف کرو پھول کر مغرور بن جاتا ہے اور جہل مرکب میں گرفتار ہو کر رہ جاتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6061
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6162
6162. حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے سامنے ایک آدمی نے کسی دوسرے آدمی کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا: افسوس تجھ پر! تم نے اپنی بھائی کی گردن کاٹ دی۔۔۔۔ آپ نے تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے۔ اگر تمہیں کسی کی تعریف کرنا ہو اور وہ اس کے متعلق جانتا بھی ہو تو اس طرح کہو ”فلاں کے متعلق میرا خیال یہ ہے یقینی طور پر اللہ ہی اس کا حساب جانتا ہے۔ میں تو اللہ کے مقابلے میں کسی کو نیک نہیں کہہ سکتا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6162]
حدیث حاشیہ: کیونکہ اس کواللہ کے علم کی خبر نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6162
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2662
2662. حضرت ابوبکرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کے پاس کسی دوسرے شخص کی تعریف کی تو آپ نے کئی مرتبہ فرمایا: ”تجھ پر افسوس ہے!تم نے تو اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی۔“ پھر آپ نے تلقین فرمائی: ”تم میں سے اگرکوئی اپنے بھائی کی ضرور تعریف کرنا چاہتا ہے تو اسے یوں کہنا چاہیے کہ اللہ ہی فلاں شخص کے متعلق صحیح علم رکھتا ہے۔ میں اس کے مقابلے میں کسی کو پاک نہیں ٹھہراتا۔ میں اسے ایسا ایسا گمان کرتا ہوں بشرط یہ کہ وہ اس کی اس خوبی سے واقف ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2662]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صفائی دینے والا ایک مرد ہی کافی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرد کی صفائی کا اعتبار کیا ہے لیکن ضروری ہے کہ وہ اس کی صفائی میں حد سے زیادہ بڑھنے کی بجائے حق گوئی سے کام لے۔ اگر کوئی شخص اپنی تعریف سن کر فخر میں آ جائے تو ایسے شخص کی تعریف سے بچنا چاہیے اور جس شخص سے اس کے کمال تقویٰ کے باعث فخر و تکبر کا خطرہ نہ ہو اس کی صفائی دینے اور تعریف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کا طریقہ رسول اللہ ﷺ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ”اصل علم تو اللہ تعالیٰ کو ہے، اس کے علم کے مقابلے میں کسی کو پاک نہیں ٹھہرایا جا سکتا، البتہ اس شخص کے متعلق میں اچھا گمان رکھتا ہوں۔ “(2) کسی آدمی کی منہ پر تعریف کی جا سکتی ہے بشرطیکہ اس کے فخر میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہ ہو، البتہ تعریف میں حد سے بڑھنا بہرحال ممنوع ہے، چنانچہ امام بخاری ؒ اس کے متعلق ایک دوسرا عنوان قائم کرتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2662
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6061
6061. حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کی مجلس میں ایک آدمی کا ذکر آیا تو ایک دوسرے شخص نے اس کی خوب تعریف کی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: افسوس! تم نے اپنی ساتھی کی گردن توڑ ڈالی ہے۔۔۔ آپ ﷺ نے یہ جملہ کئی بار دہرایا۔۔۔۔ اگر کوئی اپنے ساتھی کی تعریف کرنا ہی چاہتا ہو تو یوں کہے: میں اس کے متعلق ایسا خیال کرتا ہوں (اور یہ بھی اس صورت میں) اگر وہ جانتا ہے کہ دوسرا شخص واقعی ایسا ہے اللہ تعالٰی اس کا محاسبہ کرنے والا ہے اللہ تعالٰی کے سامنے میں اس کی صفائی نہیں دیتا (کیونکہ وہ تو سب کو خوب جانتا ہے) وہیب نے خالد سے (ویحك کی بجائے) ویلك کے الفاظ بیان کئے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6061]
حدیث حاشیہ: (1) انسان کو چاہیے کہ وہ کسی دوسرے کے باطن کی پورے وثوق اور یقین سے صفائی نہ دے اور نہ کسی کی پاکدامنی ہی کا دعویٰ کرے کیونکہ باطن کے حالات اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ اسے کسی کی تعریف کرتے ہوئے صرف یہ کہنے کی اجازت ہے کہ میں اسے ایسا ایسا خیال کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ لوگوں نے کہا: آپ ہمارے سید ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”سید اللہ ہے۔ “ لوگوں نے کہا: آپ ہمارے لیے صاحب فضیلت اور صاحب جود وسخا ہیں تو آپ نے فرمایا: ”تم اس طرح کی بات تو کہہ سکتے ہو لیکن کہیں شیطان تمھیں اپنا وکیل نہ بنائے کہ ایسی بات کہہ دو جو میری شان کے مطابق نہ ہو۔ “(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 4806)(2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسلاف سے بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کی اس کے سامنے تعریف کرے تو اسے درج ذیل دعا پڑھنی چاہیے: (اللَّهمّ اجْعَلْنِي خَيْرًا مِمَّا يَظُنُّونَ، وَاغْفِرْ لِي مَا لا يَعْلَمُونَ، وَلا تُؤَاخِذْنِي بِمَا يَقُولُونَ) ”اے اللہ! میرے متعلق جن امور کا انھیں علم نہیں مجھے معاف کر دے اور جو وہ کہتے ہیں اس کے متعلق میرا مؤاخذہ نہ کر اور مجھے ان کے گمان کے مطابق اچھا بنادے۔ “(شعب الإیمان للبیھقي: 228/4، وصحیح الأدب المفرد للألباني: 282/1،رقم: 761/589)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6061