انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقبرہ بقیع میں تھے کہ ایک شخص نے دوسرے کو آواز دی: اے ابوالقاسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی جانب متوجہ ہوئے، تو اس نے عرض کیا کہ میں نے آپ کو مخاطب نہیں کیا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ میرے نام پر نام رکھو، لیکن میری کنیت پر کنیت نہ رکھو“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3737]
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3737
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) بقیع مدینہ منورہ کے قریب ایک میدان تھا جس کے ایک حصے میں قبرستان تھا جبکہ باقی میدان میں خرید و فروخت ہوتی تھی۔ آج کل اس میدان میں اہل مدینہ کا قبرستان ہے جسے عرف عام میں ”جنت البقیع“کہا جاتا ہے۔ اس واقعہ کی ایک روایت میں یہ لفظ ہیں: ”نبی ﷺ بازار میں تھے کہ ایک آدمی بولا: اے ابوالقاسم!۔ ۔ ۔ ۔ ۔“(صحيح البخاري، المناقب، باب كنية النبى ﷺ، حديث: 3537)
(2) کنیت سے مراد وہ نام ہے جو اولاد کی نسبت سے ”ابو“ یا ”ام“ کے ساتھ رکھا جائے، مثلاً: ابو بکر ؓ اور ام عبداللہ (عائشہ صدیقہ ؓ)
(3) اس مسئلے میں مختلف اقوال ہیں: امام ابن ماجہ ؒ نے باب کا جو عنوان تحریر کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی رائے یہ ہے کہ جس شخص کا نام محمد ہو، وہ ابوالقاسم کنیت نہ رکھے۔ دوسرا آدمی یہ کنیت رکھ سکتا ہے۔ بعض علماء کی رائے ہے کہ یہ ممانعت صرف نبی ﷺ کی زندگی میں تھی جیسا کہ زیر مطالعہ حدیث سے بھی بطاہر یہی معلوم ہوتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3737
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2841
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا نام اور آپ کی کنیت دونوں ایک ساتھ رکھنا مکروہ ہے۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص آپ کا نام اور آپ کی کنیت دونوں ایک ساتھ جمع کر کے محمد ابوالقاسم نام رکھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2841]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے، بعض کا کہنا ہے کہ آپﷺ کی زندگی میں یہ چیز ممنوع تھی، آپﷺ کے بعد آپﷺ کا نام اورآپﷺ کی کنیت رکھنا درست ہے، بعض کا کہنا ہے کہ دونوں ایک ساتھ رکھنا منع ہے، جب کہ بعض کہتے ہیں کہ ممانعت کا تعلق صرف کنیت سے ہے، پہلا قول راجح ہے۔ (دیکھئے اگلی دونوں حدیثیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2841
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5586
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، ایک آدمی نے بقیع میں دوسرے آدمی کو آواز دی، اے ابو القاسم! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے تو اس نے عرض کی، اے اللہ کے رسول! میرا مقصود آپ نہیں ہیں، (میں نے آپ کو آواز نہیں دی) میں نے تو فلاں کو پکارا ہے، (بلایا ہے) اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا نام رکھ لو اور میری کنیت مت رکھو۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5586]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی کنیت رکھنے سے اس لیے روکا کہ اس سے التباس پیدا ہوتا تھا، کیونکہ جب ایک آدمی نے دوسرے آدمی کو ابو القاسم کہہ کر پکارا تو آپ نے خیال کیا مجھے پکارا ہے، اس لیے آپ متوجہ ہوئے، اس نے جب یہ کہا کہ میں نے آپ کو نہیں بلایا، تب آپ نے یہ ارشاد فرمایا، میرا نام رکھ لو، لیکن میری کنیت نہ رکھو، جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عرب عام طور پر دوسرے کو کنیت سے یاد کرتے تھے، خاص کر معزز و محترم فرد کو نام لے کر نہیں پکارتے تھے، اس لیے نام رکھنے کی صورت میں اشتباہ کا احتمال کم تھا اور اس کی ایک وجہ اور ہے، جو آگے آ رہی ہے، اس لیے ابو القاسم کنیت رکھنے کے بارے میں علماء کی مختلف نظریات ہیں(1) امام مالک، جمہور سلف اور جمہور فقہاء اور علماء کا یہ موقف ہے کہ اس ممانعت کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے ہے، جب کہ اس کنیت رکھنے سے التباس کا خطرہ تھا اور اب التباس کا خدشہ باقی نہیں رہا ہے، اس لیے اب جو چاہے یہ کنیت رکھ سکتا ہے، خواہ اس کا نام محمد یا احمد ہو یا نہ ہو۔ (2) امام شافعی اور اہل ظاہر کا نظریہ یہ ہے، یہ ابو القاسم کنیت رکھنا کسی کے لیے بھی جائز نہیں ہے، خواہ اس کا نام محمد یا احمد ہو یا نہ ہو۔ (3) امام ابن جریر کے نزدیک یہ نص تنزیہہ یا ادب و احترام کے لیے ہے۔ (4) یہ کنیت رکھنا اس شخص کے لیے ممنوع ہے، جس کا نام محمد یا احمد ہو اور جس کا یہ نام نہ ہو اس کے لیے ابو القاسم کنیت رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بعض متقدمین کا یہی موقف ہے۔ (5) ابو القاسم کنیت رکھنا، ہر ایک کے لیے ممنوع ہے، اس طرح قاسم نام رکھنا جائز نہیں ہے، تاکہ اس کے باپ کو ابو القاسم نہ کہا جا سکے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5586
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2120
2120. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: کہ نبی ﷺ ایک دفعہ بازار میں تھے تو ایک شخص نے”ابو القاسم“ کہہ کر آواز دی۔ جب نبی ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے تو اس نے کہا کہ میں نے تو اس شخص کو بلایا تھا۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: ”تم لوگ میرے نام پر نام رکھ لیا کرو لیکن میری کنیت پر اپنی کنیت نہ رکھا کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2120]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں حضرت رسول کریم ﷺ کا بازار میں تشریف لے جانا مذکور ہے۔ ثابت ہوا کہ بوقت ضرورت بازار جانا برا نہیں ہے، مگر وہاں امانت و دیانت کو قدم قدم پر ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2120
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2121
2121. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: کہ ایک شخص نے بقیع میں ”ابو لقاسم“ کہہ کر پکارا تو نبی ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے تو اس نے کہا: میرا مقصد آپ کو بلانا نہیں تھا۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”میرے نام پر نام تو رکھ لو لیکن میری کنیت پر اپنی کنیت نہ رکھو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2121]
حدیث حاشیہ: اس حدیث کی مناسبت باب سے یہ ہے کہ اس میں آپ ﷺکے بازار جانے کا ذکر ہے یعنی بقیع میں۔ بعض نے کہا کہ اس زمانہ میں بقیع میں بھی بازار لگا کرتا تھا۔ کنیت کے بارے میں یہ حکم آپ کی حیات مبارکہ تک تھا۔ جیسا کہ امام مالک ؒ کا قول ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2121
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2121
2121. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: کہ ایک شخص نے بقیع میں ”ابو لقاسم“ کہہ کر پکارا تو نبی ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے تو اس نے کہا: میرا مقصد آپ کو بلانا نہیں تھا۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”میرے نام پر نام تو رکھ لو لیکن میری کنیت پر اپنی کنیت نہ رکھو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2121]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے حضرت انس ؓ سے مروی حدیث کو دو طریق سے بیان کیا ہے جس سے اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ پہلی روایت میں سوق سے مراد سوق بقیع ہے۔ اس کی تائید مسند احمد کی ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ راوی بیان کرتا ہے رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس بقیع میں تشریف لائے اور فرمایا: ”اے تاجروں کے گروہ!خریدوفروخت کرتے وقت جھوٹی قسم اور دھوکے وغیرہ میں انسان مبتلا ہوجاتا ہے،لہٰذا تم اس قسم کی لغزش کو صدقے وغیرہ سے دھو دیا کرو“(مسند أحمد: 6/4) ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں وہاں بازار لگتا ہو۔ (2) اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کا بازار جانا ثابت ہوتا ہے،اس لیے بوقت ضرورت بازار جانا برا نہیں مگر وہاں قدم قدم پر امانت ودیانت کو ملحوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ کافر لوگ رسول اللہ ﷺ پر اعتراض کرتے تھے کہ یہ رسول کھانا کھاتا اور بازار جاتا ہے،گویا ان کے نزدیک بازار جانا منصب نبوت کے خلاف تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ آپ کا بازار جانا شان ِرسالت اور منصب امامت کے خلاف نہیں۔ قرآن کریم نے بھی اس اعتراض کا جواب دیا ہے۔ (الفرقان20: 25)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2121