عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن میں پھونک مارنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأشربة/حدیث: 3429]
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3429
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اگر پانی میں کوئی تنکا وغیرہ گر جائے تو اسے کسی چیز (چمچ وغیرہ) سے نکال دیا جائے یا تھوڑا سا پانی انڈیل دیا جائےتاکہ تنکا نکل جائے۔
(2) اگر دودھ یا چائے وغیرہ گرم ہو تو ٹھنڈا کرنے کےلئے بھی پھونک مارنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ دوسرے برتن میں تھوڑا تھوڑا ڈال کر پی لیں۔
(3) بعض علماء نے اس سے دلیل لی ہے کہ بیمار کے لئے کوئی سورت یا دعاء پڑھ کر پانی میں دم نہیں کرنا چاہیے بلکہ براہ راست مریض کودم کرنا چاہیے۔ اوردعا کرنی چاہیے۔ کیونکہ یہ دونوں عمل مسنون ہیں جبکہ پانی میں دم کرنا مسنون نہیں۔ اور بعض علماء کے نزدیک پانی میں دم کرنا جائز ہے۔ کیونکہ دم میں سورۃ فاتحہ اور دعایئں وغیرہ پڑھی جاتی ہیں۔ ان کے اثرات کو پانی میں منتقل کرنے کےلئے پانی میں دم کئے بغیرچارہ نہیں اس لئے ان کے نزدیک بطور پانی میں پھونک مارنا عام پھونک مارنے سے مختلف ہے۔ عام حالات میں پھونک مارنا یقیناً ممنوع ہے۔ لیکن بطور دم پھونک مارنا جائز ہے۔ واللہ اعلم۔ (دیکھئے مضمون: کیا پانی پر دم کرنا جائز نہیں از حافظ صلاح الدین یوسف شائع شدہ الاعتصام جلد: 55 شمارہ 30 یکم اگست 2003 وفتاویٰ الدین الخالص (عربی) مولانا امین اللہ پشاوری ج: 5 ص: 40 44)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3429