الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الأطعمة
کتاب: کھانوں کے متعلق احکام و مسائل
50. بَابُ : الاِقْتِصَادِ فِي الأَكْلِ وَكَرَاهِيَةِ الشِّبَعِ
50. باب: کھانے میں میانہ روی کا بیان اور بھر پیٹ کھانے کی کراہت۔
حدیث نمبر: 3349
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ الْحِمْصِيُّ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ , حَدَّثَتْنِي أُمِّي , عَنْ أُمِّهَا , أَنَّهَا سَمِعَتْ الْمِقْدَامَ بْنَ مَعْدِ يكَرِبَ , يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" مَا مَلَأَ آدَمِيٌّ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ , حَسْبُ الْآدَمِيِّ لُقَيْمَاتٌ يُقِمْنَ صُلْبَهُ , فَإِنْ غَلَبَتِ الْآدَمِيَّ نَفْسُهُ , فَثُلُثٌ لِلطَّعَامِ , وَثُلُثٌ لِلشَّرَابِ , وَثُلُثٌ لِلنَّفَسِ".
مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: آدمی نے پیٹ سے زیادہ برا کوئی برتن نہیں بھرا، آدمی کے لیے کافی ہے کہ وہ اتنے لقمے کھائے جو اس کی پیٹھ سیدھی رکھ سکیں، لیکن اگر آدمی پر اس کا نفس غالب آ جائے، تو پھر ایک تہائی پیٹ کھانے کے لیے، ایک تہائی پینے کے لیے، اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے رکھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3349]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11578)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الزہد 47 (2380)، مسند احمد (4/132) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو لوگ خواہش نفس کی اتباع سے دور ہیں وہ تہائی پیٹ سے بھی کم کھاتے ہیں، اور تہائی پیٹ سے زیادہ کھانا سنت کے خلاف ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   جامع الترمذيما ملأ آدمي وعاء شرا من بطن بحسب ابن آدم أكلات يقمن صلبه فإن كان لا محالة فثلث لطعامه وثلث لشرابه وثلث لنفسه
   سنن ابن ماجهما ملأ آدمي وعاء شرا من بطن حسب الآدمي لقيمات يقمن صلبه فإن غلبت الآدمي نفسه فثلث للطعام وثلث للشراب وثلث للنفس
   بلوغ المرامما ملا ابن آدم وعاء شرا من بطن

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3349 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3349  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ضرورت سے زیادہ کھانا ہضم نہیں ہوتا اور کوئی فائدہ پہنچائے بغیر جسم سے خارج ہو جاتا ہے اس لیے اتنا ہی کھانا کھانا چاہیے جو پوری طرح ہضم ہو کر جسم کے لیے مفید ثابت ہو۔

(2)
کھانے کا مقصد زندگی کو قائم رکھنا ہے لہٰذا طرح طرح کے پرتکلف کھانے تیار کرنے اور انہیں کھانے میں وقت ضائع کرنے کی بجائے کسی نیکی کےمفید اور بامقصد کام میں وقت صرف کیا جانا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3349   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1274  
پیٹ بھر کر کھانے کی مذمت
«وعن المقدام بن معد يكرب رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏ما ملا ابن آدم وعاء شرا من بطن ‏‏‏‏ اخرجه الترمذي وحسنه.» مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن آدم نے کوئی برتن نہیں بھرا جو اس کے پیٹ سے بڑا ہو۔ اسے ترمذی نے روایت کیا اور حسن قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1274]
تخریج:
«صحيح»
[ترمذي 2380]،
[حاكم 4/121]،
[احمد 4/132]،
[ابن حبان 1349]،
مسند احمد میں اس کی سند یوں ہے:
«حدثنا ابوالمغيره قال حدثنا سليمان بن سليم الكناني قال حدثنا يحيي بن جابر الطائي قال سمعت المقدام بن معديكرب قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم»
شیخ البانی نے اس سند کو صحیح متصل اور حدیث کو صحیح قرار دیا ہے تفصیل کے لئے دیکھئے ارواء الغلیل [7/41-42] ترمذی نے فرمایا: حسن صحیح ہے۔ حاکم نے اس پر سکوت فرمایا، ذہبی نے فرمایا «قلت: صحيح» ۔
اس حدیث کا بقیہ حصہ یہ ہے:
«بحسب ابن آدم اكلات يعمن صلبه فان كان لا محالة فثلث لطعامه وثلث لشرابه وثلث للنفس»
ابن آدم کو چند لقمے کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں سو اگر اسے ضرور ہی کھانا ہو تو تیسرا حصہ کھانے کے لئے اور تیسرا پینے کے لیے اور تیسرا سانس کے لیے۔
صحیح ابن حبان میں ہے:
«فان كان فاعلا لا محالة . . . الخ»
اور ابن ماجہ میں ہے:
«فان غلبت الآدمي نفسه فثلث للطعام وثلث للشراب وثلث للنفس» [صحيح ابن ماجه 2704]
سو اگر آدمی پر اس کا نفس غالب آ جائے تو تیسرا حصہ کھانے کے لئے کرے تیسرا پینے کے لئے اور تیسرا سانس کے لئے۔

فوائد:
➊ اس حدیث میں پیٹ بھر کر کھانے کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ کیونکہ آدمی کے بدن کے لئے بھی نقصان دہ ہے اور اس کے دین کے لیے بھی۔ ضرورت سے زائد کھانا مختلف بیماریوں کا باعث ہے انسان کی طبیعت کو بوجھل کرتا ہے جس سے وہ آسانی کے ساتھ اللہ کے احکام ادا نہیں کر سکتا۔
➋ ابنِ رجب نے فرمایا: ابن ابی ماسویہ طبیب نے یہ حدیث پڑھی تو کہنے لگا اگر لوگ اس پر عمل کریں تو بیماریوں سے محفوظ رہیں اور ہسپتال اور دوا فروشوں کی دکانیں بے کار ہو جائیں۔ [توضيح]
عرب کے مشہور طبیب حارث بن کلدہ نے کہا: معدہ بیماری کا گھر ہے اور پرہیز علاج کا اصل ہے۔
➌ زیادہ کھانے سے پانی زیادہ پینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ جس کے نتیجے میں نیند زیادہ آتی ہے پیشاب اور پاخانے کی حاجت زیادہ ہوتی ہے۔ آدمی کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ انہی چیزوں میں برباد ہو جاتا ہے۔
➍ زیادہ کھانے سے حرص بڑھتی ہے۔ جسے پورا کرنے کے لئے آدمی زیادہ سے زیادہ وقت کھانے پینے کی چیزیں مہیا کرنے میں صرف کرتا ہے۔ سب سے پہلے تو اتنی آمدنی ہو کہ نفس کی حرص پوری ہو سکے پھر چیزیں خریدنا پھر لذیذ سے لذیذ کھانوں کی تیاری، غرض اس برے برتن کو بھرتے بھرتے ہی دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔
➎ زیادہ کھانے سے پیٹ میں فضول مادے جمع ہو جاتے ہیں، فاسد بخارات پیدا ہو کر دماغ کو چڑھتے ہیں۔ میدے اور آنتوں میں زہریلے مادے اور خمیر پیدا ہو کر مختلف امراض کا باعث بنتے ہیں شوگر، بلڈ پریشر، السر، دل کی شریانوں میں رکاوٹ وغیرہ بسیار خوری کا ہی نتیجہ ہیں۔ آہستہ آہستہ پیٹ پھولنے لگتا ہے اور جسم موٹا ہو جاتا ہے جو خود ایک بیماری اور مصیبت ہے معنوی نقصان یہ ہوتا ہے کہ طبیعت سست ہو جاتی ہے دل کی روشنی بجھ جاتی ہے، ہمت پست ہو جاتی ہے اور موٹا ہونے کے باوجود کمزور ہو جاتا ہے۔
➏ مقوی اور لذیذ کھانے زیادہ سے زیادہ کھانے کے نتیجے میں شہوت بڑھتی ہے۔ حرص کی وجہ سے طبیعت پر پہلے ہی ضبط نہیں ہوتا۔ چنانچہ ہر وقت گناہ میں مبتلا ہونے کے خطرے سے دوچار رہتا ہے۔
➐ ان تمام بیماریوں کا علاج کم کھانا ہے۔ جس سے حرص کم ہوتی ہے۔ طبیعت ہوشیار، دماغ بے دار، دل روشن، جسم ہلکا پھلکا اور قوی ہو جاتا ہے اکثر بیماریاں قریب نہیں پھٹکتیں اللہ کی اطاعت کے لیے بہت سا وقت نکل آتا ہے۔ تہجد اور دوسرے اعمال آسانی سے کر سکتا ہے۔ گناہوں کی رغبت کم ہو جاتی ہے۔ نفس امارہ مایوس رہتا ہے۔
➑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کے لئے چند لقمے کافی قرار دیے اور وہ بھی چھوٹے کیونکہ ایک روایت میں «لقيمات» کا لفظ بھی آیا ہے۔ [صحيح ابن ماجه 2705]
«اكلاتٌ» یا «لقيماتُ» جمع مؤنث سالم ہے جو نکرہ ہے اور الف لام سے خالی ہے عام طور پر یہ جمع قلت کے لیے استعمال ہوتی ہے جس کا اطلاق تین سے دس تک ہوتا ہے۔ اگر صبر ہو سکے تو یہ بہترین مقدار ہے جو آدمی کے لیے کافی ہے اگر نفس غالب ہو تو آخری حد یہ بیان فرمائی کہ ایک حصہ کھانے سے ایک پینے سے پر کرنے کے بعد تیسرا حصہ سانس کے لئے خالی رکھے اس سے زیادہ کھائے گا تو یہ اسراف ہے۔
➒ بعض صوفیاء نے بھوک کی فضیلت بیان کرتے کرتے بات یہاں تک پہنچا دی کہ اللہ کی نعمتوں کو ہی ترک کر دیا۔ کسی نے دودھ پینا چھوڑ دیا کسی نے لذیذ کھانا چھوڑ دیا۔ یہ طریقہ بھی اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے۔ «وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا» [7-الأعراف:31] کھاؤ پیو اور اسراف نہ کرو۔ یہ بھی اسراف ہے کہ اپنے نفس کو بھوک کے عذاب میں رکھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ان لنفسك عليك حقا» [صحيح بخاري]
یقیناً تمہارے نفس کا تم پر حق ہے اور یہ اسراف ہے کہ اس برے برتن کو بھرتا ہی رہے۔



   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 121   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1274  
´دنیا سے بے رغبتی اور پرہیزگاری کا بیان`
سیدنا مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ بدترین برتن جو انسان بھرتا ہے، (انسان کا) پیٹ ہے۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور اسے حسن قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1274»
تخریج:
«أخرجه الترمذي، الزهد، باب ما جاء في كراهية كثرة الأكل، حديث:2380.»
تشریح:
1. اس حدیث میں بسیار خوری (بہت زیادہ کھانے) کو بدترین خصلت قرار دیا گیا ہے۔
2.بسیار خوری بہت سے دینی اور دنیاوی مفاسد اور خرابیوں کی جڑ ہے۔
ایسا آدمی صرف کھانے پینے کی فکر میں رہتا ہے اور بسا اوقات وہ یہ بھی تمیز نہیں کرتا کہ جس کھانے سے پیٹ بھر رہا ہے‘ وہ حلال ہے یا نہیں۔
3.بسیار خوری امراض معدہ کا باعث بھی ہے اور دل و دماغ پر بھی اس کے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
4.سنن ابن ماجہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا میں بسیار خوری کرنے والے لوگ قیامت کے دن زیادہ طویل عرصے تک بھوکے رہیں گے۔
(سنن ابن ماجہ‘ الأطعمۃ‘ باب الاقتصاد في الأکل وکراھۃ الشبع‘ حدیث:۳۳۵۰‘ ۳۳۵۱) اس لیے یہ عادت دنیا و آخرت دونوں کی خرابی کا باعث ہے۔
امام غزالی رحمہ اللہ نے احیاء العلوم میں بسیار خوری کے دس نقصانات کا اور بقدر کفایت کھانے کے دس فوائد کا تذکرہ کیا ہے جو قابل ملاحظہ ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1274   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2380  
´زیادہ کھانے پینے کی کراہت کا بیان۔`
مقدام بن معدیکرب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: کسی آدمی نے کوئی برتن اپنے پیٹ سے زیادہ برا نہیں بھرا، آدمی کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں اور اگر زیادہ ہی کھانا ضروری ہو تو پیٹ کا ایک تہائی حصہ اپنے کھانے کے لیے، ایک تہائی پانی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے باقی رکھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2380]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث میں زیادہ کھانے کی ممانعت ہے اورکم کھانے کی ترغیب ہے،
اس میں کوئی شک نہیں اورحکماء واطباء کا اس پر اتفاق ہے کہ کم خوری صحت کے لیے مفید ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2380