تخریج: «أخرجه الترمذي، الزهد، باب ما جاء في كراهية كثرة الأكل، حديث:2380.»
تشریح:
1. اس حدیث میں بسیار خوری
(بہت زیادہ کھانے) کو بدترین خصلت قرار دیا گیا ہے۔
2.بسیار خوری بہت سے دینی اور دنیاوی مفاسد اور خرابیوں کی جڑ ہے۔
ایسا آدمی صرف کھانے پینے کی فکر میں رہتا ہے اور بسا اوقات وہ یہ بھی تمیز نہیں کرتا کہ جس کھانے سے پیٹ بھر رہا ہے‘ وہ حلال ہے یا نہیں۔
3.بسیار خوری امراض معدہ کا باعث بھی ہے اور دل و دماغ پر بھی اس کے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
4.سنن ابن ماجہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”دنیا میں بسیار خوری کرنے والے لوگ قیامت کے دن زیادہ طویل عرصے تک بھوکے رہیں گے۔
“ (سنن ابن ماجہ‘ الأطعمۃ‘ باب الاقتصاد في الأکل وکراھۃ الشبع‘ حدیث:۳۳۵۰‘ ۳۳۵۱) اس لیے یہ عادت دنیا و آخرت دونوں کی خرابی کا باعث ہے۔
امام غزالی رحمہ اللہ نے احیاء العلوم میں بسیار خوری کے دس نقصانات کا اور بقدر کفایت کھانے کے دس فوائد کا تذکرہ کیا ہے جو قابل ملاحظہ ہے۔