ابوحازم کہتے ہیں کہ میں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ نے میدہ دیکھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک میدہ نہیں دیکھا تھا، تو میں نے پوچھا: کیا لوگوں کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چھلنیاں نہ تھیں؟ انہوں نے جواب دیا: میں نے کوئی چھلنی نہیں دیکھی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی، میں نے عرض کیا: آخر کیسے آپ لوگ بلا چھنا جو کھاتے تھے؟ فرمایا: ہاں! ہم اسے پھونک لیتے تو اس میں اڑنے کے لائق چیز اڑ جاتی اور جو باقی رہ جاتا اسے ہم گوندھ لیتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3335]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4731، ومصباح الزجاجة: 1151)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأطعمة 22 (5410)، سنن الترمذی/الزہد 38 (2364)، مسند احمد (5/332، 6/71) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اور گوندھ کر روٹی پکا لیتے، غرض رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں آٹا چھاننے کی اور میدہ کھانے کی رسم نہ تھی، یہ بعد کے زمانے کی ایجاد ہے، اور اس میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے، آٹا جب چھانا جائے، اور اس کا بھوسی بالکل نکل جائے، تو وہ ثقیل اور دیر ہضم ہو جاتا ہے، اور پیٹ میں سدہ اور قبض پیدا کرتا ہے، آخر یہ چھاننے والے لوگ اتنا غور نہیں کرتے کہ رب العالمین نے جو حکیم الحکماء ہے گیہوں میں بھوسی بیکار نہیں پیدا فرمائی، پس بہتر یہی ہے کہ بے چھنا ہوا آٹا کھائے، اور اگر چھانے بھی تو تھوڑی سی موٹی بھوسی نکال ڈالے لیکن میدہ کھانا بالکل خطرناک اور باعث امراض شدیدہ ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3335
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) «حوارٰی» کی وضاحت النھایۃ میں اس طرح کی گئی ہے: اس آٹے کی روٹی جسے بار بار چھانا گیا ہو۔ (النھایة: مادہ حور) لیکن حدیث میں اس سے مراد بار بار چھانا ہوا باریک آٹا یا میدا ہے۔ اس آٹے کی روٹی کا نام نقی ہے۔
(2) جو کے آٹے میں گندم کے آٹے کی نسبت زیادہ بھوسی ہوتی ہے اس لیے اسے چھاننے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اور نبی ﷺ کے زمانے میں گندم کمیاب تھی اس لیے تابعی کو تعجب ہوا کہ جو کا آٹا چھانے بغیر کس طرح استعمال کیا جاتا تھا۔
(3) صحابی نے وضاحت کی کہ معمولی سا پھٹک کر تھوڑی بہت بھوسی نکل جاتی تھی۔ اسی کو کافی سمجھا جاتا تھا۔ زیادہ تکلف نہیں کیا جاتا تھا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3335