ام المؤمنین عائشہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو بڑے، موٹے سینگ دار، چتکبرے، خصی کئے ہوئے مینڈھے خریدتے، ان میں سے ایک اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے ذبح فرماتے، جو اللہ کی توحید اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں، اور دوسرا محمد اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ذبح فرماتے۔ [سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3122]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14968، 17731، ومصباح الزجاجة: 1083)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/220) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن عقيل ضعيف و سفيان الثوري عنعن و للحديث شواھد ضعيفة انوار الصحيفه، صفحه نمبر 488
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3122
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) قربانی کے جانور عمدہ ہونے چاہییں۔
(2) جانور ظاہری شکل وصورت میں بھی اچھا ہونا چاہیے۔
(3) خصی جانور کی قربانی درست ہے اسے عیب نہ شمار کیا جاتا۔
(4) گھر کے تمام افراد کی طرف سے ایک جانور کی قربانی کافی ہے۔
(5) کسی اور کی طرف سے قربانی کرنا درست ہے۔
(6) میت کی طرف سے قربانی كرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ نبی اکرم ﷺ کے عمومی عمل سے استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ بعض علماء کے نزدیک وہ آپﷺ کا خاصہ ہے جس میں امت کے لیے آپکی اقتداء جائز نہیں۔ دیکھیے: (إرواء الغليل: 4/ 354) علاوہ ازیں خیر القرون (صحابہ وتابعین کے بہترین ادوار) میں بھی میت کی طرف سے قربانی کرنے کا ثبوت نہیں ملتا۔ صرف ایک نقطۂ نظر سے اس کا جواز ہو سکتا ہے کہ میت کی طرف صدقہ کرنا جائز ہے یعنی ایصال ثواب کے طور پر اس کا انکار کرنا ممکن نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3122