عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اگر میں صفا اور مروہ کے درمیان دوڑوں تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوڑتے ہوئے دیکھا ہے، اور اگر میں عام چال چلوں تو میں نے آپ کو ایسا بھی چلتے دیکھا ہے، اور میں بہت بوڑھا ہوں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2988]
وضاحت: ۱؎: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے قول کا یہ مطلب ہے کہ دوڑنا اور معمولی چال سے چلنا دونوں طرح سنت ہے، ا ور اگر چلنا سنت بھی ہو تب بھی چلنے میں میرے لیے حرج نہیں، اس لیے کہ میں ناتواں بوڑھا ہوں۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1904
´صفا اور مروہ کا بیان۔` کثیر بن جمہان سے روایت ہے کہ صفا و مروہ کے درمیان عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے پوچھا: ابوعبدالرحمٰن! میں آپ کو (عام چال چلتے) دیکھتا ہوں جب کہ لوگ دوڑتے ہیں؟ انہوں نے کہا: اگر میں عام چال چلتا ہوں تو اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عام چال چلتے دیکھا ہے اور اگر میں دوڑ کر کرتا ہوں تو اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سعی (دوڑتے) کرتے دیکھا ہے اور میں بہت بوڑھا شخص ہوں۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1904]
1904. اردو حاشیہ: یعنی صفا مروہ کے درمیان سعی کرنا (دوڑنا)چاہیے۔لیکن اگر کوئی بیماری یا شدید بڑھاپے کی وجہ سے دوڑ نہ سکے تو اس کے لئے چلنا بھی کفایت کرجائے گا۔واللہ اعلم۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1904