ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم شہید کسے سمجھتے ہو“؟ لوگوں نے جواب دیا: اللہ کے راستے میں مارا جانا (شہادت ہے) فرمایا: ”تب تو میری امت میں بہت کم شہید ہوں گے“! (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں ایسی بات نہیں بلکہ) جو اللہ کے راستے میں مارا جائے وہ شہید ہے، جو اللہ کے راستے میں مر جائے وہ بھی شہید ہے، پیٹ کی بیماری میں مرنے والا بھی شہید ہے، طاعون کے مرض میں مرنے والا شہید ہے“۔ سہیل کہتے ہیں: مجھے عبیداللہ بن مقسم نے خبر دی وہ ابوصالح سے روایت کرتے ہیں، اس میں یہ لفظ زیادہ ہے: ”اور ڈوب کر مرنے والا بھی شہید ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2804]
الشهداء الغرق والمطعون والمبطون والهدم وقال ولو يعلمون ما في التهجير لاستبقوا ولو يعلمون ما في العتمة والصبح لأتوهما ولو حبوا ولو يعلمون ما في الصف المقدم لاستهموا
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2804
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہوئےجان دینا اصل شہادت ہے۔ شہید کے عظیم ترین درجات انھی افراد کے لیے ہیں۔
(2) جہاد کے سفر کے دوران میں یا جہاد کے دوران میں کسی بھی وجہ سے فوت ہوجانا بھی شہادت کے برابر ہے تاہم اس شہید کے احکام عام میت کے ہیں۔ اسے غسل اور کفن دیکر دفن کیا جائے گا۔
(3) طاعون سے یا پیٹ کی بیماری سے فوت ہونے والا بھی شہادت کا درجہ پاتا ہے۔ کسی ناقابل علاج مرض سے فوت ہو جانے والا بھی اسی ضمن میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
(4) ڈوب کر مرجانے والا اور جل کر مر جانے والا بھی شہید ہے۔ دوسری حادثاتی اموات کو بھی اسی حکم میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
(5) بچے کی پیدائش کے وقت فوت ہوجانے والی عورت کی موت بھی شہادت کی موت ہے۔
(6) جہاد کے دوران میں دشمن کے ہتھیار سےمرنے والے کے علاوہ باقی سب شہادتیں کم درجے کی ہیں۔ ان کے احکام ان شہیدوں کے سے نہیں لہٰذا انھیں غسل اور کفن کے ساتھ دفن کیا جائے گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2804
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2829
´اللہ کی راہ میں مارے جانے کے سوا شہادت کی اور بھی سات قسمیں ہیں` «. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الشُّهَدَاءُ خَمْسَةٌ الْمَطْعُونُ، وَالْمَبْطُونُ، وَالْغَرِقُ، وَصَاحِبُ الْهَدْمِ، وَالشَّهِيدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ . . .» ”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”شہید پانچ قسم کے ہوتے ہیں۔ طاعون میں ہلاک ہونے والا ‘ پیٹ کی بیماری میں ہلاک ہونے والا ‘ ڈوب کر مرنے والا ‘ دب کر مر جانے والا اور اللہ کے راستے میں شہادت پانے والا۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2829]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2829 کا باب: «بَابُ الشَّهَادَةُ سَبْعٌ سِوَى الْقَتْلِ:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں سات شہادت کی اقسام کا ذکر فرمایا ہے اور دلیل کے طور پر پانچ اقسام والی حدیث پیش فرمائی ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں جن سات شہادتوں کا ذکر فرمایا ہے وہ بھی حدیث میں مروی ہے مگر وہ حدیث ان کی شرط پر نہ تھی۔ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «ويحتمل عندي أن يكون البخاري أراد التنبيه على أن الشهادة لا تنحصر فى القتل، بل لها أسباب آخر وتلك الأسباب أيضا اختلفت الأحاديث فى عددها ففي بعضها خمسة، وهو الذى صح عند البخاري و وافق شرطه وفي بعضها سبعة، ولم يوافق شرط البخاري.»[المتواري، ص: 159] ”میرے نزدیک یہ احتمال ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تنبیہ فرمائی ہے کہ صرف قتال میں شہادت کا انحصار نہیں ہے بلکہ اس کے اور بھی اسباب ہیں جو مختلف احادیث میں مختلف شمار کے ساتھ ہیں۔ بعض احادیث میں پانی کا ذکر ہے جو کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر ہے (جس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح میں فرمایا ہے) اور بعض احادیث میں سات کا ذکر ہے (جیسا کہ باب قائم فرمایا ہے) مگر وہ احادیث (جس میں سات کا ذکر ہے) امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر نہیں ہے۔“ لہذا باب اور حدیث میں مناسبت یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا اشارہ اس حدیث کی طرف ہے جس میں شہادت کی سات اقسام کا ذکر ہے جسے امام مالک رحمہ اللہ نے «المؤطا» میں ذکر فرمایا ہے جس کی روایت سیدنا جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: «الشهداء سبعة سوى القتل»[مؤطا، كتاب الجنائز، رقم الحديث: 26] ”شہداء سات قسموں پر ہیں قتل کے علاوہ۔“ یہ حدیث چونکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی شرائط پر نہ تھی اسی لیے اس حدیث کی طرف اشارہ فرمایا باب قائم فرما کر، اور جو پانچ قسموں پر حدیث ہے اسے نقل کر دیا چونکہ وہ آپ رحمہ اللہ کی شرط پر تھی۔ ابن بطال رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب پر اعتراض کرتے ہوئے فرمایا کہ حدیث باب سے یہ ترجمہ سرے سے ہی مستنبط نہیں ہوتا کیونکہ ترجمہ سات کا ہے اور حدیث میں سوی القتل شہداء چار ہیں۔ [شرح ابن بطال، ج 5، ص 42] مذکورہ اعتراض کا جواب ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن بطال رحمہ اللہ کا قول ظاہر اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس ترجمۃ الباب کے تحت سیدنا جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ کی حدیث کو داخل کرنا چاہتے ہیں، لیکن قضا نے ان کو مہلت نہ دی، لیکن ابن بطال کا قول محل نظر ہے۔ [المتواري على أبواب البخاري، ص: 158] یہ ترجمہ مؤطا کی ایک روایت سے ماخوذ ہے جو سیدنا جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور اس میں شہداء کی سوی القتل فی سبیل اللہ کی سات ہی اقسام بیان کی گئی ہیں۔ [فتح الباري، ج 6، ص: 43] محمد ذکریا کاندھلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وعندي يمكن أن يقال إن لفظ ”سبع“ يطلق ويراد به الكثرة و معنى الترجمة أن أسباب الشهادة سوا القتل كثيرة.»[الأبواب والتراجم لصحيح البخاري، ج 4، ص: 223] میرے نزدیک بات یہ ہے کہ لفظ ”سبع“ کو جب مطلقا ذکر کیا جائے تو اس سے مراد کثرت ہوتی ہے۔ لہذا ترجمۃ الباب کا معنی یہ ہو گا کہ «قتل فى سبيل الله» کے علاوہ بھی شہادت کے کئی اسباب ہیں (جن کا ذکر کتب احادیث میں مختلف جگہوں پر کیا گیا ہے) اور ”سبع“ کا لفظ اپنے حقیقی معنی پر نہیں رہے گا بلکہ معنی مجازی (کثرت) پر محمول ہو گا۔ فائدہ: سب سے بڑا شہادت کا رتبہ وہ ہے جو اللہ کے رستے میں مارا جائے، ان کے علاوہ بھی احادیث میں کئی شہداء کے مراتب کا ذکر موجود ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان شہداء کی تعداد بیس ذکر فرمائی ہے۔ [فتح الباري، ج 6، ص: 54] امام زرقانی رحمہ اللہ شارح مؤطا امام مالک نے ان کی تعداد ستائیس ذکر فرمائی ہے۔ [شرح الزرقاني، ج 2، ص: 600] علامہ عینی رحمہ اللہ نے چالیس کا ذکر فرمایا ہے۔ [عمدة القاري، ج 14، ص: 124] علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر تفصیلی بحث کی ہے اور ان کی تعداد تیس بیان فرمائی ہے۔ [أوجز المسالك، ج 4، ص: 392 - أبواب السعادة فى أسباب الشهادة للسيوطى] محمد ذکریا کاندھلوی نے ان کی تعداد ساٹھ ذکر فرمائی ہے۔ [أوجز المسالك، ج 4، ص: 294] ہم ان شہداء کا مختصر ذکر کیئے دیتے ہیں۔ ① اللہ کی راہ میں مارا جائے۔ ② ذات الجنب کے درد سے مر جائے۔ ③ عورت اپنے نفاس کی حالت میں مر جائے۔ ④ اپنے مال بچانے کے لیے۔ ⑤ اپنے دین، خون اور اہل کے بچانے کے لیے۔ ⑥ گھوڑے یا اونٹ سے کچلا گیا۔ ⑦ زہریلے جانور سانپ یا بچھو کے ڈسنے سے۔ ⑧ مسافر کی موت۔ ⑨ اللہ کی راہ میں پہرہ دینے والا۔ ⑩ جس کو درندہ کھا لے۔ ⑪ جو خالص دل سے شہادت طلب کرے اور اپنے بچھونے پر مر جائے۔ ⑫ مبطون - پیٹ کی بیماری میں ہلاک ہونے والا۔ ⑬ لدیغ - ڈسا ہوا۔ ⑭ غریق۔ ⑮ اپنی سواری سے گر کر مر جائے۔ ⑯ جو پہاڑ کے سر سے گرا دیا جائے۔ ⑰ دریا میں ڈوب جائے۔ ⑱ جل کر مر جائے آگ میں، وغیرہ وغیرہ۔ مزید تفصیل اور تحقیق کے لیے دیکھئے: [فتح الباري لابن حجر رحمه الله، ج 6، ص: 54 - شرح الزرقاني على مؤطا امام مالك ج 2، ص: 99-100 - عمدة القاري للعيني رحمه الله، ج 14، ص: 124 - اوجز المسالك، ج 4، ص 292] امام نووی رحمہ اللہ ان مراتب پر گفتگو کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ: «المراد بشهادة هؤلاء كلهم غير المقتول فى سبيل الله إنهم يكون لهم ثواب الشهداء و أماني الدنيا فيغسلون و يصلى عليهم و قد سبق فى كتب الإيمان بيان هذا و أن الشهداء ثلاثة أقسام شهيد فى الدنيا و الآخرة و هو المقتول فى الحرب الكفار و شهيد فى الآخرة دون أحكام الدنيا و هم هؤلاء المذكورون هنا و شهيد فى الدنيا دون الآخرة و هو من غل فى الغنيمة أو قتل مدبرا.»[شرح نووي، ج 2، ص: 142] ”یعنی مقتول کے علاوہ ان جملہ شہادتوں سے مراد یہ ہے کہ آخرت میں ان کو شہداء کا ثواب ملے گا مگر دنیا میں وہ شہداء کی طرح نہیں بلکہ عام مسلمانوں کی طرح غسل دیئے جائیں گے اور ان پر نماز جنازہ بھی پڑھی جائے گی، شہداء تین قسم کے ہوتے ہیں، ایک تو وہ ہیں جو دنیا اور آخرت میں شہید ہی ہیں جو جہاد میں کافروں کے ہاتھوں مارے گئے، دوسری قسم کے شہید وہ جو دنیا میں شہید ہوئے مگر آخرت میں شہید نہیں، وہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے مال غنیمت وغیرہ میں خیانت کی، تیسری قسم کے شہید وہ جو دنیا میں شہید ہیں مگر دنیا میں ان پر احکام شہداء جاری نہ ہوں گے، ایسے ہی شہداء یہاں مزکور ہیں۔“ ➊ شہید فی الدنیا و الآخرۃ سے مراد کون ہیں؟ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد کریں اور وہ شہید ہو جائیں۔ ➋ شہید فی الدنیا سے مراد کون ہیں؟ اس سے مراد وہ شخص ہے جو میدان جہاد میں مارا جائے لیکن اس کی نیت ریاکاری، شہرت اور نام و نمود ہو، یا پھر وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ رہا ہو، یا پھر مال غنیمت میں خیانت کی ہو۔ ➌ شہید فی الآخرۃ سے کون لوگ مراد ہیں؟ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو دیوار گرنے سے دب کر مر جائیں، یا جل کر مر جائیں، یا پیٹ کی بیماری کا شکار ہو کر مر جائیں، وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ تیسری قسم ہے کہ ان پر دنیا میں شہید کے احکامات لاگو نہیں ہوں گے، یعنی انہیں غسل بھی دیا جائے گا اور کفن بھی پہنایا جائے گا۔ [فتح الباري، ج 6، ص: 53-55 - شرح الكرماني، ج 5، ص: 43 - عمدة القاري، ج 14، ص: 127]
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1063
´شہید کون لوگ ہیں؟` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شہید پانچ لوگ ہیں: جو طاعون میں مرا ہو، جو پیٹ کے مرض سے مرا ہو، جو ڈوب کر مرا ہو، جو دیوار وغیرہ گر جانے سے مرا ہو، اور جو اللہ کی راہ میں شہید ہوا ہو“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1063]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یہ پانچ قسم کے افراد ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ قیامت کے روز شہیدوں کا ثواب عطا فرمائے گا بعض روایات میں کچھ اور لوگوں کا بھی ذکر ہے ان احادیث میں تضاد نہیں اس لیے کہ پہلے نبی اکرم ﷺ کو اتنے ہی لوگوں کے بارے میں بتایا گیا بعد میں اللہ تعالیٰ نے اس فہرست میں کچھ مزید لوگوں کا بھی اضافہ فرما دیا ان میں شہید فی سبیل اللہ کا درجہ سب سے بلند ہے کیونکہ حقیقی شہید وہی ہے بشرطیکہ وہ صدق دل سے اللہ کی راہ میں لڑا ہو۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1063
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2829
2829. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”شہید پانچ قسم کے ہیں: طاعون میں مرنے والا، پیٹ کی بیماری سے مرنے والا، غرق ہوکر مرنے والا، دیوار کے نیچے دب کر مرنے والا اور پانچواں جو اللہ کی راہ میں شہید ہوجائے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2829]
حدیث حاشیہ: بعض احادیث میں شہادت کی سات قسموں کا صاف ذکر آیا ہے‘ حضرت امامؒ نے عنوان انہیں احادیث کے پیش نظر لگایا ہے لیکن چونکہ یہ احادیث ان کی شرائط پر نہیں تھیں‘ اس لئے انہیں باب کے تحت نہیں لائے۔ مقصد یہ ہے کہ شہادت صرف جہاد کرتے ہوئے قتل ہو جانے کا ہی نام نہیں ہے بلکہ اس کی مختلف صورتیں ہیں۔ یہ بات دوسری ہے کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے شہادت پانے کا درجہ بہت ہی بلند ہے۔ (دوسری روایتوں میں ہے کہ جو جل کر یا نمونیہ میں مر جائے یا عورت زچگی میں یا آدمی اپنے مال و جان کی حفاظت میں یا سفر میں یا سانپ اور بچھو کے کاٹنے سے یا درندے کے پھاڑنے سے مر جائے‘ وہ شہید ہے‘ امام نوویؒ فرماتے ہیں المراد بشھادة ھٰولاء کلھم غیر المقتول في سبیل اللہ أنھم یکون لھم ثواب الشھداء وأما في الدنیا فیغسلون ویصلى علیھم وقد سبق في کتاب الإیمان بیان ھذا وأن الشھداء ثلاثة أقسام شھید في الدنیا والآخرة وھو المقتول في حرب الکفار وشھید في الاخرة دون أحکام الدنیا وھم ھٰولاء المذکورون ھنا وشھید في الدنیا دون الاخرة وھو من غل في الغنیمة أو قتل مدبرا (نووی‘ ج: 2، ص: 134) یعنی مقتول کے علاوہ ان جملہ شہادتوں سے مراد یہ کہ آخرت میں ان کو شہداء کا ثواب ملے گا مگر دنیا میں وہ شہداء کی طرح نہیں بلکہ عام مسلمانوں کی طرح غسل دئیے جائیں گے اور ان پر نمازِ جنازہ بھی پڑھی جائے گی۔ شہداء تین قسم کے ہوتے ہیں‘ ایک تو وہ ہیں جو دنیا و آخرت میں شہید ہی ہیں‘ جو جہاد میں کفار کے ہاتھوں سے مارے جائیں۔ دوسری قسم کے شہید وہ جو آخرت میں شہید ہوئے مگر آخرت میں شہید نہیں‘ وہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے مال غنیمت وغیرہ میں خیانت کی۔ تیسری قسم کے شہید وہ جو دنیا میں شہید ہیں مگر دنیا میں ان پر احکام شہداء جاری نہ ہوں گے‘ ایسے ہی شہداء یہاں مذکور ہیں۔ لفظ شہید کی حقیقت بتلانے کے لئے حضرت امام نووی شارح ؒ مسلم لکھتے ہیں: وأما سبب تسمیته شھیداً فقال النضر بن شمیل لأنه حي فإن أرواحھم شھدت و حضرت دارالسلام و أرواح غیرھم إنما تشھدھا یوم القیامة وقال ابن الأنباري لأن اللہ تعالٰی وملائکته علیھم الصلٰوة والسلام یشھدون له بالجنة وقیل لأنه شھد عند خروج روحه ما أعدہ اللہ تعالیٰ له من الثواب والکرامة وقیل لأن ملائکة الرحمة یشھدونه فیأخذونه روحه وقیل لأنه شھدله بالإیمان وخاتمة الخیر بظاھر حاله وقیل لأن علیه شاھدا بکونه شھیدا وھو الدم وقیل لأنه یشھد علی الأمم یوم القیامة بإبلاغ الرسل الرسالة إلیھم وعلی ھذا القول یشاركھم غیرھم في ھذا الوصف (نووی‘ ج: 2، ص: 134) یعنی شہید کی وجہ تسمیہ کے بارے میں پس نضر بن شمیل نے کہا کہ وہ زندہ ہے یعنی ان کی روح دارالسلام میں زندہ اور حاضر رہتی ہے جبکہ ان کے غیر کی روحیں قیامت کے دن وہاں حاضر ہوں گی۔ ابن انباری نے کہا اس لئے کہ اللہ پاک اور اس کے فرشتے اس کے لئے جنت کی شہادت دیتے ہیں اور کہا گیا کہ اس لئے کہ جب بھی اس کی روح نکلی اس نے ثواب اور کرامت سے متعلق اللہ کے وعدوں کا مشاہدہ کیا اور کہا گیا کہ اس لئے کہ رحمت کے فرشتے اس کی شہادت کے وقت حاضر ہوتے اور اس کی روح کو لے لیتے ہیں اور کہا گیا کہ اس لئے کہ ظاہری شہادت کی بنا پر اس کے ایمان اور خاتمہ بالخیر کی شہادت دی گئی اور کہا گیا کہ اس پر اس کا خون شاہد ہوگا جو اس کے شہید ہونے کی شہادت دے گاور کہا گیا کہ اس لئے کہ وہ قیامت کے دن دوسری امتوں پر شہادت دے گا کہ ان کے رسولوں نے ان کو اللہ کے پیغامات پہنچا دئیے اور اس قول پر ان کے غیر بھی اس میں ان کے شریک ہوں گے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2829
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5733
5733. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”پیٹ کی بیماری سے مرنے والا شہید ہے اور طاعون کی بیماری سے مرنے والا بھی شہید ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5733]
حدیث حاشیہ: طاعون ایک بڑی خطرناک وبائی بیماری ہے جس نے بارہا نوع انسانی کو سخت ترین نقصان پہنچایا ہے۔ ہندوستان میں بھی اس کے بارہا حملے ہوئے اور لاکھوں انسان لقمہ اجل بن گئے۔ اسلام میں طاعون زدہ مسلمان کی موت کو شہادت کی موت قرار دیا گیا ہے طاعون عذاب الٰہی ہے جو کثرت معاصی سے دنیا پر مسلط کیا جاتا ہے، اللھم احفظنا منہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5733
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5733
5733. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”پیٹ کی بیماری سے مرنے والا شہید ہے اور طاعون کی بیماری سے مرنے والا بھی شہید ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5733]
حدیث حاشیہ: طاعون ایک بہت بڑی خطرناک اور مہلک بیماری ہے جس کی وجہ سے بارہا نوع انسانی کو سخت ترین نقصان پہنچا ہے لیکن اہل ایمان کے لیے یہ شہادت کا باعث ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے حضور جب معرکے میں شہید ہونے والے اور طاعون سے مرنے والے پیش ہوں گے تو طاعون سے مرنے والے کہیں گے کہ ہم بھی شہید ہیں۔ فیصلے کے لیے کہا جائے گا کہ طاعون سے مرنے والوں کے زخموں کو دیکھا جائے، اگر ان کے زخم شہیدوں کے زخموں کی طرح ہیں اور ان سے خون بہتا ہے جس سے کستوری کی خوشبو آتی ہو تو انہیں شہداء شمار کیا جائے، چنانچہ انہیں دیکھا جائے گا کہ وہ انہی اوصاف سے متصف ہیں تو انہیں شہداء میں شمار کیا جائے گا۔ “(مسند احمد: 4/185) لیکن یہ درجہ حاصل کرنے کے لیے چند ایک شرائط ہیں جن کا آئندہ حدیث میں ذکر ہو گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5733