انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک لڑائی میں حاضر ہوا، تو عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے میرے نفس! میرا خیال ہے کہ تجھے جنت میں جانا ناپسند ہے، میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تجھے جنت میں خوشی یا ناخوشی سے جانا ہی پڑے گا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2793]
وضاحت: ۱؎: یعنی اللہ کی راہ میں شہید ہو گا اور شہادت جنت میں جانے کا سبب بنے گی، مگر نفس کو ناپسند ہے اس لئے کہ دنیا کی لذتوں کو چھوڑنا پڑتا ہے، عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے جیسے قسم کھائی تھی ویسا ہی ہو ا وہ جنگ موتہ میں شہید ہوئے جہاں جعفر بن ابی طالب اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے اور اوپر ایک حدیث میں گزرا کہ اللہ کے بعض بندے ایسے ہیں کہ اگر اللہ کے بھروسہ پر قسم کھا بیٹھیں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کو سچا کرے، عبد اللہ بن رواحہ بھی ایسے ہی بندوں میں تھے، رضی اللہ عنہ وارضاہ۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2793
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) یہ واقعہ غزوہ موتہ کا ہے جس میں مسلمانوں کے تین سپہ سالار شہید ہوئے یعنی حضرت زید بن حارث حضرت جعفر طیار اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم۔ آخر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فوج کی قیادت سنبھالی اور بڑی حکمت سے مسلمانوں کی چھوٹی سی فوج کو دشمن کی تینتیس گنا فوج کے نرغے سے نکال لائے۔ اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت خالد کو سیف اللہ کا لقب دیا۔
(2) جنگ کے دوران میں بہادری کا اظہار کرنے والےاور جوش دلانے والے شعر پڑھنا جائز ہے۔
(3) جان کے جنت کو ناپسند کرنے کا مطلب موت سے گھبراہٹ ہے جو انسان میں فطری چیز ہےلیکن میدان جہاد میں موت جنت میں داخلے کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح جو شخص موت سے گھبراتا ہے وہ گویا جنت میں داخل ہونے میں دیر کر رہا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہ کا مطلب یہ تھا کہ موت سے نہ ڈرو کیونکہ اس موت کے ڈر سے جنت ملے گی۔
(4) اشعار کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہ موت سے ڈرتے تھے بلکہ ان اشعار کے ذریعے سے دوسرے مجاہدین میں جوش وجذبہ پیدا کرنا مقصود تھا۔
(5) جن اشعار میں خلاف شریعت امور نہ ہوں اسے شعر کہنا سننا یاد کرنا اور دوسروں کو سنانا سب جائز ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2793